12 بجے (دوسری اور آخری قسط)

آٹھ سے نو بجے۔۔۔ اور نو سے دس بج گئے۔ مجال ہے جو کسی آنے جانے والے نے شادی ہال کا رُخ کیا ہو۔ اُن کی نظریں اپنے سامنے سے گزرنے والے ہر شخص کا تعاقب کرتیں کہ شاید وہ شادی ہال میں داخل ہو اور وہ امید بھری نگاہیں تب تک تعاقب میں رہتیں جب تک وہ شخص نگاہوں سے اوجھل نہ ہوجاتا۔ کوئی ساڑھے دس بجے کا وقت ہوگا کہ انہیں ان کا ایک شناسا ارشاد احمد شادی ہال کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ دوڑے دوڑے گئے اور اُس کے چہرے کے بوسے لینے لگے۔ وہ بے چارا اِس اچانک افتاد سے بوکھلا گیا۔
”چھوڑو مجھے۔۔۔ میں اِس طرح کا نہیں ہوں بھئی۔ چھوڑو!“ ارشاد بے بسی سے چلایا۔
”میرے بچے۔۔۔ میرے لال۔۔۔ میرے بابو! کہاں رہ گیا تھا تُو؟“ فخرو نے مامتا بھری شفقت سے پوچھا جیسے ماں اپنے لڑکے کے رات گئے آنے پر سوال کرتی ہے۔
”اوئے۔۔۔ یہ تم ہو فخرو!“ ارشاد نے جب اُن کی جبری قید سے نجات پائی تو دیکھا کہ اُس کے ساتھ ”زبردستی“ کی کوشش کرنے والا کوئی اور نہیں، دولہا میاں تھے۔ جی میں تو اُس کے یہ آیا کہ ایک دو کرارے دار تھپڑا رسید کرڈالے، آنے کو تو منہ میں بھی اعلا درجے کی مغلظات آئیں لیکن موقع محل کا لحاظ کیا۔ فخرو نے اُسے پکڑا اور وہاں لے گئے جہاں گذشتہ تین گھنٹے سے انتظار کی مجسم تصویر بنے بیٹھے تھے۔ اب جو فٹ پاتھ پر بیٹھنے لگے تو ارشاد چلایا:
”ابے یہاں بیٹھ کر کیا کرے گا پاگل؟“
”کتے کی دُم سیدھی کروں گا۔“ فخرو کا دماغ گھوم گیا تھا۔
فخرو کے ہاتھ جو آجائے، وہ بھلا بچ کیسے سکتا تھا۔ کوئی آدھ/ پون گھنٹے تک ارشاد سر جھکائے وقت کی پابندی پر فخرو میاں کا لیکچر سنتا رہا اور جواب میں فرماں بردار شاگرد کی طرح سر ہلاتا رہا کہ اُس کی خیریت و عافیت بہ ہر حال اِسی میں تھی۔ یہاں تک کہ وہ وقت آن پہنچا جب فخرو میاں کو شادی ہال میں لایا گیا۔
یہ دیکھیں۔۔۔ فخرو میاں باراتیوں کے ہمراہ اسٹیج کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ارے!! یہ شور کیسا؟ اوہ خدایا! فخرو میاں نے اپنا سہرا اُتار کر ارشاد کے منہ پر کھینچ مارا۔ دروغ بر گردنِ راوی، مگر سنتے ہیں کہ کسی ناہنجار، نامعقول نے فخرو میاں کو شادی ہال میں داخل ہوتے ہی سہرا پہنادیا۔ سہرا کیا پہنایا، فخرو میاں تو ہوگئے اندھے۔ چہرے کو پھولوں نے یوں ڈھک لیا گویا داغ زدہ چاند کو بادلوں نے چھپالیا ہو۔ اب فخرو میاں اسٹیج کی طرف یوں چل رہے تھے جیسے کسی گائے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسے قربان گاہ کی طرف لے جایا جائے۔ ایک طرف تو فخرو میاں کو یہ الجھن کہ وقت گزرتا جاتا ہے، دوسری طرف مووی بنانے والا کہ اُن کے ہر قدم کو دس سیکنڈز تک محفوظ کرنا چاہتا تھا۔ فخرو میاں نے بارہا کوشش کی کہ یہاں سے چھپ چھپاکر آگے بھاگ سکیں لیکن ارشاد نے اُن کی ہر کوشش ناکام بنادی۔ بھلا یہ بے چارے بھولے بھالے معصوم سے فخرو میاں اِس ”جبری تشدد“ کے کہاں عادی تھے؟ جونہی صبر کا پیمانا لبریز ہوا، اچانک سہرا اُتار کر ارشاد کے منہ پر دے مارا۔
”لے مردود! تجھی کو مبارک ہو یہ سہرا۔۔۔ ہم ایسے ہی بھلے۔“ اچھا خاصا تماشا کھڑا ہوگیا۔ ارشاد نے کانوں کو ہاتھ لگائے کہ مجال ہے جو آئندہ فخرو میاں کے ساتھ کہیں جاؤں۔
بارہ بجنے کی دیر تھی۔ اِدھر فخرو میاں کی گھڑی نے ”دھوم مچالے، دھوم مچالے دھوم“ کی دُھن کے ساتھ بارہ بجنے کا اعلان کیا، اُدھر اُن کے دماغ کی پھرکی ایسی گھومی اور وہ اُدھم مچاکہ کیا سرداروں کے بارہ بجتے ہوں گے۔ کبھی مووی والے کو گھور کر بڑبڑاتے، کبھی اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے قاضی صاحب کو آوازیں مارتے۔ حد تو یہ ہے کہ کئی بار ویٹرز کو کھانا کھول دینے کا سختی سے حکم صادر فرمادیا۔ بے چارے اُن کے احباب ہر ایک کو سمجھاتے پھرتے کہ فخرو کی بات کو ہرگز سنجیدہ نہ لیا جائے۔ بل کہ کچھ احباب تو دبے الفاظ میں کہتے پھرتے کہ خود فخرو کو بھی سنجیدہ نہ لیں۔
غرض اِس شادی خانہ آبادی میں بہت سے لوگوں کی خانہ بربادی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مووی اور عجیب و غریب قسم کی رسموں سے فارغ ہوکر بے چارے فخرو جب گھر پہنچے تو رات بیت چکی تھی۔ صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ دل میں ہزاروں خواہشیں لیے کمرے میں داخل ہوئے، ہولے سے دروازہ بند کیا اور دبے پاؤں اپنی نئی نویلی دُلہن کی طرف بڑھے لیکن دو قدم بڑھاکر ہی ٹھہرگئے۔
”لعنت ہے۔۔۔!!“ فخرو میاں نے اشکوں بھری آنکھوں کے ساتھ اُداسی سے کہا۔
اُن کی دُلہن گہری نیند میں جاچکی تھی۔ فخرو میاں ایک کونے میں منہ بسورے ساری رات ٹسوے بہاتے رہے۔۔۔ بہاتے رہے۔۔۔ بہاتے رہے۔۔۔ یہاں تک کہ سورج کی کرنیں کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکنے لگیں۔
اگلے دن صبح کے تقریباً سب ہی اخبارات میں ایک خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی:

صوبے بھر میں شادی ہالز کی تقریبات رات 12 بجے ختم کرنے کا حکم


حکومت نے دفعہ 144 کے تحت ایک حکم جاری کیا ہے جس کے تحت میرج گارڈنز، ہال اور ہوٹلوں میں ہونے والی تقریبات رات 12 بجے تک ختم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ حکم کی خلاف ورزی پر میرج گارڈنز، ہال اور ہوٹل مالکان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جائے گی۔

Comments

  1. :( :( :( :(
    ایک دن پہلے اگر 12 بجے کی پابندی لگ جاتی تو کم از کم ان کی دلہن سوتی تو نہ۔
    :razz:
    .-= دوست کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ لوڈ شیڈنگ =-.

    ReplyDelete
  2. یہ بارہ بجے والی جو پابندی لگی تو سارا کمال فخرو کا تھا ۔ ہم سمجھے تھے کہ حکومت کچھ کام کرنے لگی ہے
    .-= افتخار اجمل بھوپال کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ مرزا صاحب متوجہ ہوں =-.

    ReplyDelete
  3. کہانی یہاں آ کر ختم ہوئی فخرو کی مہربانی سے بہت سے لوگو کا فائدہ ہو گیا

    خیر فہیم بھائی اچھی تحریر ہے آپ کی
    .-= خرم شہزاد خرم کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ کرکٹ اور ہمارے تبصرے =-.

    ReplyDelete

Post a Comment