12 بجے (پہلی قسط)

(میں نے کوشش تو کی تھی ایک پُرمزاح کہانی لکھنے کی۔ لکھا کیا ہے، اس کا فیصلہ قارئین پر۔)

”ارے بانگڑو! لعنت ہے بھئی، ہماری شیروانی کہاں رکھی تُو نے؟“ فخرو چلائے۔ ”اوئے بانگڑو! ابے زندہ ہے کہ مرگیا کم بخت؟“
بانگڑو مرا تو نہیں تھا لیکن گھر میں وہ شور مچا تھا کہ خدا کی پناہ۔ ایسے میں بھلا بانگڑو تک فخرو میاں کی آواز کیسے پہنچتی۔ اور خاموشی ہوتی بھی تو کیوں کر؟ اجی آج تو فخرو میاں کی شادی خانہ آبادی تھی۔ محلے بھر میں جو بھی فخرو میاں کی خبر آگے پہنچاتا تو ساتھ یہ ضرور کہتا کہ لو جی! آخرکار فخرو بھی شادی شہدا میں نام لکھوانے پر تل گئے۔
فخرو کی عمر زیادہ نہیں تھی، بس یہی کوئی 34، 35 سال صرف۔ اب آپ بتائیں، یہ بھی کوئی عمر ہوتی ہے؟ ننھا سا انسان۔ یہ تو کھیل کود کے دن ہوتے ہیں نہ کہ شادی کرکے ذمہ داری اٹھانے کی عمر۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ ارشادات تھے فخرو میاں کے لیکن سر سے اُڑتے بالوں اور دوست احباب کی جانب سے سنجیدہ نوعیت کے خدشات کے اظہار نے انہیں کچھ ایسا حواس باختہ کیا کہ وہ چھ مہینوں ہی میں شادی کی تیاریاں مکمل کر بیٹھے۔ کہاں تو انہیں شادی کے نام سے بجلی کا جھٹکا لگتا تھا اور اب کہاں وہ بے تابی کہ شام پانچ بجے سے تیار ہونے کی کوششِ پیہم جاری رکھے ہوئے تھے۔
”لعنت ہے! یہ بانگڑو بھی احمق نہ جانے کہاں جاکر دفعان ہوگیا ہے۔“ ہر جملے میں ”لعنت ہے“ کا موتی ٹانکنا فخرو میاں کی عادت بن گئی تھی۔ اس کے بغیر تو گویا اُن کا جملہ مکمل نہ ہوتا تھا۔ آپ ہی آپ بڑبڑاتے ہوئے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جھانکتے پھرتے رہے۔ آپ بھی سوچیں گے کہ بانگڑو بے چارا کون تھا؟ سچ کہیں تو فخرو میاں کی نظروں میں تو کچھ دن پہلے تک دو ٹکے کا نوکر تھا۔ لیکن آج کے دن اس کی اہمیت میں چار چاند لگنے کے ساتھ ساتھ پانچ/چھ ستارے بھی لگ گئے تھے۔ ایک ایک کمرے کی تلاشی لیتے ہوئے انہیں بانگڑو تو نظر نہ آیا، ایک جگہ اپنی شیروانی ٹنگی نظر آگئی۔ اُتار کر سینے سے ایسے لگایا جیسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ کپڑے اُٹھائے اور غسل خانے کا رُخ کیا۔ چند ہی ثانیوں بعد اندر سے صدا بلند ہوئی:
”بانگڑو۔۔۔ ابے او بانگڑو۔۔۔!“ بے چارے بانگڑو کی بدقسمتی کہیے یا فخرو میاں کی خوش قسمتی، بانگڑو قریب ہی سے گزر رہا تھا۔ جواب دے کر پھنس گیا۔
”ابے گدھے! پانی کہاں ہے؟“ فخرو اندر سے دھاڑے۔
”کہاں ہے صاحب؟“ بانگڑو نے سوال پر سوال جڑدیا۔
”لعنت ہے!“ حسبِ معمول تکیہ کلام سے جملے کا آغاز ہوا۔ ”نالائق! نلکے میں نہیں آرہا پانی۔ جاکر موٹر چلا۔“
جب تک نلکے میں پانی آنا شروع نہ ہوا، وہ اندر کھڑے (یا بیٹھے؟؟) گنگناتے رہے۔ باتھ روم singing کو وہ عظیم الشان کنسرٹ سمجھ کر شاید مزید گیتوں پر مشقِ سخن کرتے لیکن مجمع خاصا تھا اور غسل خانہ اکلوتا۔ جب دو تین لوگوں نے غسل خانے کے دروازے پر کھٹکا کیا تو انہیں خیال آیا کہ وہ کس مقام پر ہیں اور اس مقام کا کیا تقاضا ہے لہٰذا جلد از جلد (جیسے تیسے) تمام تقاضے پورے کیے اور نیا جوڑا زیب تن کیا۔ غسل خانے سے باہر نکلے تو فضا میں دبے دبے سے قہقہے سنائی پڑتے تھے لیکن وہ خوشی خوشی اُنہیں قطعی نظرانداز کرکے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
”لاحول ولاقوة! یہ کون واہیات سا آدمی ہے؟“ فخرو بھونچکا رہ گئے۔ قدِّ آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر انہیں اپنا آپ بھی اجنبی گمان ہونے لگا۔ ہر طرح کی بے ہودہ حرکت کرنے کے بعد جب انہیں یقین آگیا کہ آئینے میں نظر آنے والا واہیات آدمی کوئی اور نہیں بل کہ اُن ہی کی دل فریب شخصیت (بہ زعمِ خود) ہے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
”ماشاء اللہ فخرو! آج تو تم نکھر گئے ہو۔“ انہوں نے زیرِ لب مسکراتے اور شرماتے ہوئے اپنا کاندھا تھپتھپایا۔
”ہائیں۔۔۔ یہ کیا ہے۔۔۔؟“ اچانک اُن کی نظر اپنے سر پر پڑی اور پھر پڑی ہی رہ گئی جہاں بالوں کے درمیان اُن کی چمک دار ٹنڈ چپکے چپکے جھانک رہی تھی۔
”لعنت ہے۔۔۔“ تکیہ کلام کا گولا فائر ہوا۔
”ہائے ہائے ہائے ہائے۔۔۔۔“ فخرو میاں نے سینہ پیٹ لیا۔ کمرے میں ذرا سی دوڑ لگائی، بستر پر چڑھ کر اُچھل کود کی، فرش پر لیٹ کر لوٹیں ماریں، تب جاکر اُن کے ذہن میں ایک خیال آیا جس کے تصور سے اُن کا چہرہ تمتما اُٹھا۔
کمرے سے باہر نکل کر پہلا شخص جو اُن کے ہتھے چڑھا، واہ رے قسمت کہ بانگڑو تھا۔ فخرو کی حالت دیکھ کر اُس کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔ کھلا تو اُس کا منہ بھی تھا لیکن اِس سے پہلے کہ اُس کی گز بھر زبان باہر نکلتی، فخرو نے دھماکا کردیا:
”ٹوپی دے۔“ اُنہوں نے مختصر الفاظ میں حکم صادر کیا۔
”نہیں صاحب میں ٹوپی نہیں دیتا۔ میں سچ بولتا ہوں۔ میں درزی سے شیروانی اِس حالت میں نہیں لایا تھا۔“ بانگڑو بات کو سمجھنے کے بجائے دوسری الجھن میں پڑگیا۔
”شیروانی کو آگ میں جھونک۔ ٹوپی بتا۔“ فخرو کو خوف کھائے جارہا تھا کہ شادی کی تقریب تک اُن کی ٹنڈ مزید سر نہ نکال لے۔
”ہوا کیا ہے صاحب؟ کس سے بچنے کے لیے ٹوپی بتاؤں؟“ بانگڑو بھی بوکھلا گیا۔
”اُلو کے۔۔۔۔ ٹنڈ چھپانے کے لیے ٹوپی پہننی ہے۔“ فخرو نے ہاتھ سے سر کی طرف اشارہ کیا تو اصل بات بانگڑو کے پلے پڑی۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے فخرو کو اپنی ٹنڈ کا ذکر کرنا بڑا معیوب گزرا۔ بہ ہر حال، وہ تو اُن کا اپنا ہی بندہ تھا۔ ٹوپی پہننے کے بعد جو وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے تو بڑا اطمینان محسوس کیا لیکن ابھی سکون کے دو سانس بھی نہ لیے تھے کہ نظر شیروانی پر پڑگئی جو فرش پر لوٹ پوٹ ہونے کے سبب اُن کا منہ چڑا رہی تھی۔
”لعنت ہے۔۔۔“ فخرو کے جی میں آیا کہ شیروانی پھاڑ کر پرے کردیں لیکن اپنی دیوانگی پر مصلحتاً قابو پایا اور اُسے ٹھیک کرنے کے جتن میں لگ گئے۔
شام کے سات بجے تھے جب فخرو مکمل طور پر تیار ہوکر کمرے سے باہر جلوہ افروز ہوئے۔ جس نے بھی دیکھا، اپنا سر پیٹ لیا۔ لاکھ سمجھایا کہ بھلا اتنی جلدی تیار ہونے کی کیا ضرورت؟لیکن فخرو میاں تو فخرو میاں ٹھہرے۔ اب موصوف کے دماغ میں جو بات ایک بار گھس جائے، وہ اندر کی بھول بھلیوں میں ایسی گم ہوتی ہے کہ اُسے واپسی کا راستہ کم ہی ملتا ہے۔ کچھ بھی کہہ کر دیکھ لیجیے، وہی ضد کہ احباب کو وقت کی پابندی کا کہا ہے۔ آٹھ بجے ہی شادی ہال پہنچ گئے۔ ہاں، اِتنا ضرور خیال کیا کہ شادی کے دن پہلے لڑکی والے جاتے ہیں، پھر لڑکے والوں کی بارات پہنچتی ہے۔ شادی ہال سے قدرے فاصلے پر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے اور ہر آنے جانے والے کی کڑی نگرانی کا من بھاتا فریضہ سرانجام دینے لگے۔

(جاری ہے۔۔۔)

Comments

  1. حضور یہ کس کا قصہ ہے؟ میرے تو ایسے حالات نہ تھے اور قیاس ہے کہ آپ کے بھی نہ رہے ہونگے۔

    ReplyDelete
  2. خوب :razz:
    مکمل کیجیئے گا۔
    .-= محمد وارث کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ فارسی غزلِ غالب مع تراجم =-.

    ReplyDelete
  3. :grins:
    مکمل کا انتطار رہے گا۔
    .-= دوست کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ لوڈ شیڈنگ =-.

    ReplyDelete
  4. بہت ہی اعلٰی، اب تو اگلی قسط بھی پڑھنی پڑے گی.. .

    ReplyDelete
  5. کیا بات ہے جناب میں دعا کروں گا آپ کی شادی جلدی ہو جائے :razz:

    بہت اچھا لکھا ہے جناب انتظار رہے گا

    ReplyDelete
  6. اچھا لکھا ہے عمار۔۔ دوسرے جز کا انتظار رہے گا۔

    ReplyDelete
  7. کہیں گھر میں آپکی شادی کی بات تو نہیں چل رہی آجکل؟
    .-= خرم کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ پہلا عجائب گھر =-.

    ReplyDelete

Post a Comment