Condition of Books in Libraries

جامعہ کراچی بلاشبہ کتب کا خزانہ ہے۔ اگر اس کے کتب خانے کھنگالے جائیں تو بہت سی نایاب کتب مطالعے کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔ ہر شعبے کا ایک کتب خانہ ہے جو عموماً سیمینار لائبریری کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مرکزی کتب خانہ ’’مرکزی محمود حسین لائبریری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی عمارت میں نیچے کتابیں ہفتے/ دو ہفتے کے لیے طلبا کو جاری کی جاتی ہیں (اگر ان کا لائبریری کارڈ بنا ہوا ہو تو)۔ ایک وقت میں دو کتابیں جاری کروائی جاسکتی ہیں۔ یہ جگہ عموماً ’’سرکولیشن‘‘ کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ اگر آپ کتب خانے کی لائبریری میں جائیں تو ہر مضمون کا الگ سیکشن ہے اور ہر سیکشن میں بیٹھ کر پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہاں سے کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں بلکہ ممبرز کو صرف وہیں پڑھنے یا ان کا مواد نقل کرنے کے لیے کتاب جاری ہوتی ہے۔
’’سرکولیشن‘‘ سے اجرا شدہ کتب سے طلبا فائدہ تو اُٹھاتے ہی ہیں لیکن ان قیمتی کتب کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ آج میرے ہاتھ ایک کتاب لگی جس کے ابتدائی صفحات پر لکھی تحاریر پڑھ کر اگرچہ ہنسنا آیا لیکن کتاب کی حالتِ زار اور طلبا کی ذہنی پستی پر شدید افسوس ہوا۔ میں آپ کو اس کتاب کے حال سے آگاہ کرتا ہوں۔
یہ ادریس صدیقی کی ایک ضخیم (غالباً ڈھائی سو سے زاید صفحات پر مشتمل) کتاب ہے۔ عنوان ہے: ’’اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ‘‘۔ اس کے نیچے کسی نے قلم سے لکھا ہے: ’’ایسا جائزہ آیندہ ہرگز نہ کرنا ورنہ بہت ماروں گا۔ عبداللہ‘‘ :sad:
اندرونی سرورق سے پہلے دو صفحات کسی زمانے میں خالی ہوا کرتے ہوں گے تاہم اب ان پر کافی کچھ تحریر کیا جاچکا ہے۔ کسی ہمدرد نے ایک پورا صفحہ پند و نصائح سے بھر ڈالا ہے کہ جامعہ میں امن سے رہیں، بڑوں کا ادب کریں، پڑھیں لکھیں، چھوٹوں پر شفقت کریں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ایک صفحہ پر شروع میں کسی نے قلم سے شاید کوئی کتاب کا نام لکھ ڈالا: ’’اردو شاعری کا ارتقا۔ بشریٰ انصاری۔‘‘ ایک باذوق (یا بدذوق؟) نے بشریٰ انصاری کے قافیے ملائے تو وہ عبارت کچھ یوں ہوگئی: ’’اردو شاعری کا ارتقا۔ بشریٰ انصاری، میں تم پر واری، لے کر رنگا رنگ پروگرام کی سواری، آپ کی خدمت میں پہلی باری، بریانی کباب اور نہاری۔‘‘
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں :dxx:
کتاب کے شروع میں کسی صاحب کا تبصرہ شاملِ اشاعت ہے۔ تبصرے میں کتاب کی خوبیاں اور تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔ آخر میں آدھ صفحہ خالی رہ گیا تھا جس پر کوئی صاحب تبصرہ نگار بن کر یوں رقم طراز ہوئے:
’’اب میری اور ادریس (مصنفِ کتاب) کی لڑائی ہوگئی ہے لہٰذا میں اس کتاب کے بارے میں پھر ایک دفعہ کہنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ یہ کتاب نہایت بودم ہے، بکواس ہے، طالبِ علم نہ پڑھیں تو بہتر ہے۔ شکریہ فقط۔ علاؤ الدین خالد‘‘
جو ابتدائی صفحات خالی تھے، وہاں ایک محترمہ نے پینسل سے یہ تحریر پیشِ خدمت کی جو کہ دراصل کتاب پر طلبا کے قلمی نقوش کے بارے میں ہے:
’’آج میں نے اس کتاب کی اُوٹ پٹانگ تحریروں کو پڑھا ہے اور مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اگر نصیحت بھی کرنا چاہتے ہیں تو بھی کتاب کا نیست ماردیتے ہیں (جیسا کہ آج میں بھی کررہی ہوں) پینسل سے اسی لیے کررہی ہوں کہ پڑھ کر مٹادیجیے گا۔
عزیز ساتھیو! یہ کتابیں ہمارا سرمایہ ہیں۔ کچھ عقل کے ناخن لیجیے اور اپنے سرمائے کی اپنے خزانے کی مانند حفاظت کیجیے تاکہ آیندہ نسلوں تک ہمارا سرمایہ کام آسکے۔
کتابوں کو کتابوں کی اصل ھالت میں دیکھنے کی مشتاق آپ کی ایک ساتھی
۲۸؍نومبر ۱۹۹۷ء‘‘
اس تحریر پر کسی نے یہ تبصرہ کیا ہے:
’’جی نہیں، ہمارا سرمایہ کتابیں نہیں۔ فخر و غرور سے ڈگری لینے کے بعد نوکری کس کو ملتی ہے۔‘‘
یہ تو ہوا کتاب پر رقم شدہ قلمی نقوش کا مختصر احوال۔ اب کتاب کی حالت سنیے۔ صفحات تو بوسیدہ ہو ہی چکے ہیں۔ ہمیں چاہیے تھا مرزا غالب کی شاعرانہ خصوصیات پر کچھ مواد۔ اب جو فہرست میں سے مرزا غالب کا باب دیکھ کر وہ صفحہ تلاش کرنا چاہا تو علم ہوا کہ صفحہ 140 سے 190 تک تمام صفحات غایب ہیں۔ شاید کسی ضرورت مند نے نکال لیے تھے۔ یہ امر بعید نہیں کہ اسی طرح اور بھی کتنے ہی صفحات کتاب میں سے غایب ہوتے۔ یہ موصوف کا احسان تھا کہ انہوں نے کتاب واپس کرنے کی زحمت گوارا کی۔ شاید انہیں اپنا لائبریری کارڈ عزیز تھا تاکہ وہ دوسری کتابوں کا بھی یہی حال کرسکیں۔
یہ اس ایک کتاب کا حال ہے جو میرے سامنے آج اتفاقاً آئی۔ ایسی کتنی ہی کتب اس وقت اس حالت کا شکار ہوں گی۔ یہ کس کی غلطی ہے؟ کہاں کمی ہے؟ جامعہ میں آنے والے طلبا کو کہتے ہیں کہ اب یہ واقعی بڑے ہوگئے ہیں۔ کیا یہ بڑوں والے کام ہیں؟ بلند و بالا باتیں کی جاتی ہیں، کبھی کتاب کی حرمت پر کوئی درس دیا جاتا ہے؟ :nahi:

Comments

  1. یار تو بے وجہ سارے علم کا ٹھیکیدار بنا معاشرے کی زباں حالی کو رو رہا ہے
    میں نے تو دیکھا ہے کہ میرے اپنے جگری یار علم دوست بن کر میری کتابیں لے جاتے اور ان کے صفحے پھاڑ پھاڑ کر اس پہ دال سویاں رکھ کر کھاتے دیکھے ہیں :@
    بہر حال ٓپ کی لائبریری کی مسلمہ حیثیت و اہمیت ان ہی باتوں سے واضح ہوتی ہے
    تھوڑا وقت دیں عوام کو، تھوڑا ہی صحیح کم سے کم پڑھ تو رہے ہیں
    ایک وقت آءے گا کہ میچورر بھی ہو جائیں گے
    جب تک ایک چھے کے تناسب کے مزے لو تم ;P
    .-= DuFFeR - ڈفر´s last blog ..اک دونی دونی ، ٹو ٹو زا فور (ہفتہ بلاگستان - ۲) =-.

    ReplyDelete
  2. [...] ہمیں کیسے طلبا دے رہا ہے، اس کے لیے میری پچھلی تحریر ’’کتابوں کی حالتِ زار‘‘ ہی کافی [...]

    ReplyDelete
  3. عمار میرا بھی جامعہ سے خاصہ لمبا رشتہ رہا ہے۔ جب سترہ سال کے بھی نہ ہوئے تھے تو آنرز میں داخلہ لیا۔ اور پھر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد واپس اپنے ڈپارٹمنٹ میں آئے اورایک مختصر مدت کے لئے تدریس سے وابستہ رہے۔ اس دوران لا تعداد بار لائبریری جانا ہوا کہ جامعہ کے اکثریتی اسٹوڈنٹس کی طرح انہی کتابوں سے گذارا کیا۔ ہمارا ایک گروپ تھا ۔ کام کی کوئ کتاب اگر اس لائبریری سے ہاتھ لگ جاتی تو لمبے عرصے تک ہمارا اس پر قبضہ رہتا۔ :devil: اس دوران ایسی کتابیں بھی دیکھیں جن پر انتہائ ناشائستہ جملے حتی کہ گالیاں تک لکھی ہوتی تھیں۔ کئ ایک پر میں نے قلم پھیرا۔ تاکہ وہ پڑھنے کے قابل رہیں۔ بیمار ذہن ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی کہ ہم ان میں خاصے خود کفیل ہیں۔ جی ہاں یہ بھی اکثر ہوتا تھا کہ کتاب میں جو صفحات چاہئیے ہوتے تھے وہ کسی نے پھاڑ لئے ہوتے تھے۔ نجانے لوگ ایسی کتاب دشمنی کیوں کرتے ہیں جبکہ فوٹو کاپی کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ اسی کو خود غرضی کہتے ہیں۔
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..میرے بچپن کے دن =-.

    ReplyDelete
  4. عمار یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے۔۔ پڑھائی لکھائی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ کتاب کی نقل اصل کتابوں کی اہمیت ختم کردیتی ہے اور لوگ ٹیلیفون ڈائریکٹری اور قیمتی کتاب کو ایک ہی میعار پر رکھ کر اس کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔ ابھی آپ محمود الحسن لائبریری پر تحقیق کیے جائیں۔۔۔ جیسا کہ عنیقہ ناز صاحبہ نے بتایا کہ گالم گلوچ تو عام سی بات ہے ۔۔ وہ جو کتاب کی اصل ہوتی ہے جس کے پیچھے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔۔ وہ صفحات ہی کوئی نیفے میں اڑس کر نکل جاتا ۔۔ پھر روتے ہیں کہ جامعہ قیمتی کتابیں پڑھنے کو کیوں نہیں دے رہی۔

    ReplyDelete
  5. آپ کی تحریر دلچسب ہے مگر اس ذہنی پستی پر افسوس ہوا..
    .-= مکی´s last blog ..سوفٹ ویئر پائیریسی – میرا موقف =-.

    ReplyDelete
  6. میٹرک تک تو مجھے خود احساس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن بعد میں جب کتاب کی اہمیت کا پتہ چلا تو اس کے بعد میں نے اپنی کسی کتاب پر اپنا نام تک نہیں لکھا
    اور میں اپنی کتابیں کسی کو اگر دوں تو اس کو کہتا تھا ایک کچھ لکھا یا پھر صفحہ موڑا تو پھر اگلی دفعہ کتاب نہیں ملے گی
    .-= نوائے ادب´s last blog ..پڑھے لکھے ان پڑھ ہفتہ بلاگستان =-.

    ReplyDelete
  7. ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبعلموں کی اکثریت کتاب کو مجبوری سمجھتی ہے، امتحانی کامیابی کے لئے۔
    لائبریریز کی خاک میں نے بھی بہت چھانی ہے۔ اور سب جگہ اسی صورتحال سے واسطہ پڑا ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔
    .-= جعفر´s last blog ..نظام تعلیم – دے دھنا دھن (ہفتہء بلاگستان -2) =-.

    ReplyDelete
  8. یار پاکستانی یہ کام یہاں بھی نہیں چھوڑتے یہاں کی لایبریوں میں اردو کتابوں میں شروع کی بجاے تو ہاشیے بھی لکھ دیتے ہیں ،،، ایک سفرنامے پر تو ایسا ہاشیہ لکھا ہوا تھا کہ میں نے اصل چھوڑ کر ہاشیہ ہی پڑھا ،،، آپ بھی پڑھ لیتے تو یونس بٹ کو بھول جاتے ،،،

    ReplyDelete
  9. ہاہاہا۔۔۔۔ ویسے انکل ٹام! معذرت کے ساتھ، یہ ہاشیہ نہیں، حاشیہ ہوتا ہے۔۔۔!!

    ReplyDelete
  10. یار میری اردو اتنی اچھی نہیں ہے ،،، میں پہلے ہاشیہ ہی لکھ رہا تھا پھر مجھے لگا کہ یہ غلط ہے تو حاشیہ لکھ دیا لول میرے ساتھ پیپرز میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے صحیح جواب پر ٹک لگایا اور اسکو مٹا کر پھر غلط پر لگا دیا ،،، ویسے تصحیح کا شکریہ

    ReplyDelete

Post a Comment