20th Letter

پرسوں والا نکاح کا پیام ابھی بھولی نہیں ہوں، میں جانتی ہوں تم مردوں کی۔۔۔ جو اس قدر انسان نہیں ہوتے جس قدر حیوان ہوتے ہیں۔ محبت کیا ہوتی ہے۔۔۔ نکاح کے پہلے تم لوگوں کو ہم سے وہ محبت ہوتی ہے جو مکڑی کو مکھی سے۔ ’’آ، میری جان! میرے غریب خانے میں قدم رنجہ فرما! آ، اے مہمانِ عزیز! میں تیرے لیے بے چین ہوں۔‘‘ مکڑی کہتی ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، معلوم ہے۔ یہ تو نکاح سے پہلے کی باتیں ہیں۔ پھر نکاح کے بعد مرد کو عورت سے جو محبت ہوتی ہے وہ ایسی ہے جیسی مالک کی محبت اپنے پنجرے میں پلے ہوئے طوطے اور مینا کے ساتھ، گھر کی بلّی کے ساتھ، گھر کے کتے کے ساتھ! مالک اگر خوش ہے تو طوطے کے پنجرے میں مزیدار پھل رکھے ہوئے ہیں، بلّی کے سامنے دودھ کا بھرا پیالہ رکھا ہے، کتے کو دسترخوان کے بہترین لقمے مل رہے ہیں۔ پھر جو ’’سرکار‘‘ کو غصہ آیا، مزاج بگڑا تو طوطے کا پنجرا ٹھکرایا جارہا ہے، بلّی مار کھارہی ہے، کتے کی کمر پر چابک پڑ رہے ہیں! ہم عورتیں تمہارے گھروں میں نرم کھال والی پالتو بلیاں ہیں جو گھر کی دیواروں کے اندر خُر خُر کرتی پھرتی ہیں۔ جب دیکھا کہ مالک خوش ہے تو اُس کی گود میں چڑھ گئیں لیکن اگر مالک کی نظر بدل گئی، مزاج برہم ہوا تو ہم گود اور بستر سے نکال کر پھینک دی جاتی ہیں، چھپتی پھرتی ہیں، ہماری مجال نہیں کہ سامنے آئیں۔ کہیں باورچی خانے کے کسی کونے میں، کہیں کسی اندھیری کوٹھری میں چھپی ہوئی پڑی ہیں۔ ہر وقت دھتکار دیے جانے کا اندیشہ ہمارے دلوں کو لپٹا ہوتا ہے۔ دراصل گھر کی چاردیواری میں بیویاں اونچے درجہ کی کنیز ہوتی ہیں۔ ’’سرکار‘‘ ان کو دسترخوان پر بٹھالیتے ہیں، اپنے بستر میں سلالیتے ہیں، اچھے اچھے لباس اور زیور عطا فرماتے ہیں تو یہ سب ’’سرکار‘‘ کا کرم ہے۔ بیویوں کا کام یہ ہے کہ عاجزانہ شکریہ کے ساتھ ان نوازشوں کو قبول کریں اور ہمیشہ دست بدعا رہیں۔ اس لیے کہ ’’سرکار‘‘ ہی کے دم سے اُن کا سہاگ قائم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

مرد جب عورت اپنے بستر کے لیے عورتیں تلاش کرتا ہے تو اس کو سب سے زیادہ فکر یہ ہوتی ہے کہ عورت حسین ہو۔ چاہے وہ خود کتنا ہی مکروہ صورت ہو، مگر عورت حسین چاہتا ہے۔نکاح سے پہلے وہ لڑکی کی صورت دیکھ کر مطمئن ہوجانا چاہتا ہے۔ مگر کبھی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اگر عورتیں بھی شادی سے پہلے مرد کی صورت دیکھ لینا چاہیں تو کیا گناہ ہے؟ کیا بھیڑ بکریاں ہم ہی ہیں کہ تم ذبح کرنے سے پہلے ہماری کھال کو دیکھتے ہو کہ ڈھلی ہوئی تو نہیں؟ ہماری عمر معلوم کرتے ہو کہ بوڑھی تو نہیں، ہمارے ہاتھ پاؤں دیکھتے ہو کہ دُبلی تو نہیں؟ مہروں پر جھگڑتے ہو، قیمتی جہیز مانگتے ہو! اور اس طرح اپنے من کا سودا کرنا چاہتے ہو۔۔۔!

میں تم سے پوچھتی ہوں کیا وجہ ہے کہ ایک دن وہ نہ آئے کہ ہم بھی مردوں کو اسی طرح اپنے سامنے حاضر کرکے نہ جانچیں اور پرکھیں، کٹم خانوں میں عورتوں کے بجائے مرد رکھے جائیں اور عورتیں جاکر ان کا بھاؤ طے کیا کریں، وہ سب ہمارے سامنے صف باندھ کر لائے جائیں اور ہم بھی مردوں کی طرح سنگ دل اور بے حیا ہوکر ان پر تبصرہ کیا کریں!
’’یہ کالا ہے!‘‘
’’یہ بھدا ہے!‘‘
’’یہ کانا ہے!‘‘
’’اس کی آنکھ ٹیڑھی ہے، کان بڑے بڑے ہیں!‘‘
’’اُس کی داڑھی میں الجھٹے ہیں!‘‘
’’یہ گنجا ہے۔‘‘
’’اس کا سانس متعفن ہے۔ اس کے دانت میلے ہیں۔‘‘

پھر تم سے ہماری عصمت کے مکار ٹھیکہ دارو! ایسا خوفناک انتقام لیا جائے کہ آسمان کے فرشتے تمہارا حال دیکھ کر کانپنے لگیں۔ صدیاں اس طرح گزر جائیں اور تم غلامی کی زنجیروں میں اسی طرح جکڑے ہوئے عورتوں کے سامنے جھکائے جاؤ جس طرح آج تم بے دست و پا عورتوں کو جھکاتے ہو، کچلتے ہو، پیستے ہو۔ آج ہم تمہارے وہ غلام ہیں جو ریگستانوں میں پتھر ڈھوتے ہیں تاکہ تمہارا فتح مینار تعمیر ہوسکے۔ ہمارے شانوں پر تمہارے چابک پڑتے ہیں تاکہ ہم تمہارے گناہوں کا بوجھ اُٹھانے سے انکار نہ کرسکیں۔ انکار کا ایک سانس بھی نہ لے سکیں، ہم دریاؤں میں پھینکتے جاتے ہیں تاکہ تم جیسے مگر مچھ اپنی غذا پائیں۔ دیوتاؤں کی قربان گاہ پر رکھے جاتے ہیں تاکہ دیوتاؤں کا چہرہ ہمارے خون سے گُل رنگ کیا جاسکے۔ پھر تمہاری فتح کے بعد جب ہم زخموں سے چور ہوکر میدانِ جنگ میں سسکتے ہوتے ہیں تو تمہارے صبا رفتار گھوڑے ہمیں روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں! کیا وہ دن کبھی نہ آئے گا کہ عورتیں تمہاری ہوس بھری آنکھوں میں سلائی پھیر کر تم کو اندھا کردیں تاکہ تمہاری بے شرم آنکھ اُن کے حسن کو دیکھ ہی نہ سکے! تمہارے کانوں میں گرم تیل ڈال کر تم کو بہرہ کردیں تاکہ وہ پھر کبھی عورت کی موسیقی سے آشنا نہ ہوں! تمہارے جسموں کو آگ اور دھوپ میں اس طرح خشک کردیں کہ تمہاری ہڈیوں میں بھی نم باقی نہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ شاید یہ سوچیں کہ مجھے ہوا کیا ہے اور کس کا بیسواں خط بیان کررہا ہوں؟ بے فکر رہیں، نہ یہ خط مجھے لکھا گیا ہے نہ لکھنے والا میرا شناسا ہے۔ کل میں نے ایک کتاب کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔

کتاب: ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘
ناول نگار: قاضی عبد الغفار
سن اشاعت: 2004ء
ناشر: بیکن بکس، ملتان، لاہور
صفحات: 196
قیمت: 140 روپے
I.S.B.N 969-534-023-7

کتاب ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ میں صنفِ نازک کے ساتھ ہمارے معاشرے میں کیے جانے والے سلوک کا مؤثر بیان ملتا ہے۔ اس کتاب میں قاضی عبد الغفار نے عورتوں پر مردوں کے ظلم، ان کی ہوسناکیوں اور مکاریوں کو ایک طوائف کی زبانی بیان کیا ہے۔ بظاہر یہ کتاب ایک بازاری عورت کی داستان ہے مگر اس کے آئینے میں ہمارے معاشرے کی شکست خوردہ عورتوں کے وجود کی بے چارگی اور ان کی بے بسی نظر آتی ہے۔ اس میں طنز بھی ہے، شگفتگی بھی، حسن و دل کشی بھی ہے اور رومانیت بھی۔ قاضی عبد الغفار صحافی تھے اس لیے اُن کی تحریر میں ایسی نشتریت ہے جو معاشرے میں اُن کی بے باکی اور تنقیدی شعور کے لیے خراج حاصل کرتی ہے۔ یہ گرچہ ایک بازاری عورت، ایک طوائف کی جانب سے لکھے جانے والے خطوط ہیں اور ان میں جنسیات کا ذکر بھی ہے لیکن قاضی صاحب نے کہیں بھی ایسا انداز نہیں اپنایا جس سے گماں ہو کہ جنس کا بیان لذت کے لیے کیا جارہا ہے۔ کتاب کے بارے میں باقی تجزیہ آپ خود اسے پڑھنے کے بعد ہی بہتر کرسکیں گے۔ میں فی الحال اپنی یہ تحریر اکیسیویں خط کے ایک اقتباس پر ختم کررہا ہوں:
مردوں کی تمام ازدواجی زندگی یک طرفہ ہوتی ہے، کتنی زندگیوں کے دریا تمہاری پیاس نے خشک کردیے مگر تم نے صرف اپنی ہی پیاس کو یاد رکھا، دریا کا پانی خشک ہوا جاتا ہے، اس کی کبھی پروا نہ کی۔ جب ضرورت ہوئی، اپنی نفس پرستی پر اللہ اور اس کے رسول کی دلیل لائے، روتی، بسورتی، بیمار، اپاہج اولاد کی کثرت بھی تمہارے خیال میں گویا اللہ پر تمہارا ایک احسان ہے۔ کہتے ہو، ’’امتِ محمدی کی تعداد کا بڑھانا ہر مسلمان کا فرض ہے!‘‘ گویا نعوذ باللہ خدا تم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ تم کانے، لنگڑے، لولے، جس قدر بچے پیدا کرسکو، کیے جاؤ، مرنے دو اگر تمہاری بیویاں بچے پیدا کرتے کرتے مرجائیں۔۔۔ بچوں کے پیدا کرنے میں کوئی ایسی رکاوٹ گوارا نہ کرو جو تمہارے تعیش میں حارج ہو۔ اگر مجاہد پیدا نہیں کرسکتے، اگر آزاد شہری پیدا نہیں کرسکتے، اگر تندرس و توانا بچے پیدا نہیں کرسکتے تو کچھ پروا نہیں، چوہے کے بچے پیدا کرو، اندھے پیدا کرو، جذامی پیدا کرو، غلام پیدا کرو، بھنگی اور چمار پیدا کرو۔۔۔ پیدا کیے جاؤ تاکہ امتِ محمدی کی تعداد میں اضافہ ہو۔

Comments

  1. کس بھوسڑی والئ کی کتاب ہے یہ

    ReplyDelete
  2. :dxx: :dxx: :dxx:

    ہیبتناک تحریر

    ReplyDelete
  3. کسی خاصے قدیم مصنف کا انداز تحریر لگا پہلی نظر میں۔ زمان و مکان سے لگ رہا ہے جیسے موصوف ڈپٹی نذیر احمد کی قبیل کی کوئی چیز ہیں۔ خیر موضوع خاصا تلخ ہے اور تحریر انتہائی طنزیہ اور نشتر قلم کی مثال۔ پسند آئی۔

    ReplyDelete
  4. لگتا ہے تمہارے خلاف بھی جہاد کا فتوی دینا پڑے گا. chxmx

    ReplyDelete
  5. لگتا ہے قاضی صاحب کو کریلے بہت پسند تھے یا ان کےا ٓنگن میں نیم کا کوئی سدا بہار درخت ہو گا
    جب تک پتا نہیں چلا تھا کہ لکھنے والا مرد ہے تو د لفظی تبصرہ ذہن میں آرہا تھا "خود ترسی"
    اب جب پتا چلا ہے کہ لکھنے والی خاتون نہیں تو اب کیا تبصرہ کروں؟

    ReplyDelete
  6. اتنے بڑے بندے تھے پھر تو مجھے معذرت کرنی چاہئے :dxx:

    ReplyDelete
  7. بوچھی!
    آپ کے مطلب کی چیز ہے نا باجو؟ :razz:

    مامون!
    آپ کی ذہنی و اخلاقی حالت کا اندازہ آپ کے تبصرے ہی سے ہورہا ہے.آپ میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ اپنا نام اور ای.میل درست لکھ جاتے. یقینآ یہ کتاب آپ جیسوں کے لیے ہرگز نہیں لکھی گئی.

    سعود!
    اتنی بھی نہیں خیر. :)

    جعفر!
    منٹو کی جھلک تو ایسی خاص نہیں.... آپ شاید موضوع کے حوالے سے بات کررہے ہیں کہ ایسے موضوعات پر منٹو نے بھی کافی لکھا ہے اور خوب لکھا ہے.

    دوست!
    مصنف ہیں بھی تو کافی پرانے ہی نا....

    ساجد!
    جلدی سے دیدیں بھائی جان، شہرت کے لیے یہ بہت ضروری ہے. :razz:

    ڈفر!
    خیر مناؤ..... :)

    محمد وارث!
    شکریہ بھائی.

    ReplyDelete

Post a Comment