Uni Diary 4

سرکاری ملازموں کے رویے کی عموما شکایت کی جاتی ہے کہ سست و کاہل ہوتے ہیں، کام نہیں کرتے، ٹالتے ہیں، صحیح رہنمائی نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جامعہ میں داخلے کے تمام عمل کے دوران ہمارے شعبے والوں کا رویہ خاصا مددگار تھا۔ نہ صرف صحیح رہنمائی کی گئی بلکہ اِدھر اُدھر دوڑنے کے بجائے ہمارا سارا کام بہ آسانی ہوگیا۔ ہاں، اِکا دکا مثالیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے ہمارے ساتھ ایک اعجاز نامی لڑکا تھا جس کی مارکس شیٹ اصل نہیں بلکہ ڈپلیکیٹ تھی۔ ڈپلیکیٹ مارکس شیٹ کو لینے سے دفتر والوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر اصل گم گئی ہے تو ساتھ ایف آئی آر کی کاپی جمع کرواؤ۔ وہ بے چارا پریشان کہ اب ایف آئی آر کا بندوبست کہاں سے کرے۔ لیکن دو، تین دن بعد جب اس نے دوبارہ ایک کوشش کی کہ شاید اب اس کا فارم جمع کرلیں تو انہیں نے آرام سے لے لیا اور ڈپلیکیٹ مارکس شیٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اللہ جانے پہلی بار جمع کرنے میں کیا مسئلہ تھا۔

ایک نابینا طالبہ عفیرہ کے والد کو شعبے والوں نے یقین دلایا کہ وہ بے فکر رہیں، ان کی بچی کو کوئی مشکل نہیں ہوگی اور اس کا پورا خیال رکھا جائے گا۔ اور واقعی میں نے ایسا ہی ہوتا دیکھا۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ جلد سے جلد ان کی تمام ضروری کاروائی نمٹاکر انہیں فارغ کردیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حقیقتا خوشی ہوئی۔

ڈھائی گھنٹے کا لیکچر
اففف۔۔۔ حد ہی ہوگئی۔ جمعرات کو مضمون "تعلیم" کی پہلی کلاس تھی جسے نو بج کر بیس منٹ پر شروع ہونا تھا۔ تھوک کے حساب سے طلبہ در آئے یہاں تک کہ کمرہ چھوٹا پڑگیا۔ عجیب دنگل مچا رہا۔ پھر اعلان ہوا کہ دوسرے کمرے میں منتقل ہونا ہے۔ ابلاغِ عامہ کے پرانے کمروں میں لے جایا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہاں ایک خاصی عمر کے موصوف داخل ہوئے اور آگے آکر ڈائس پر کھڑے ہوگئے۔ کچھ عجیب و غریب حرکات کیں اور پھر بہ آوازِ بلند سلام کیا۔ سب نے سلام کا جواب دیا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ہونٹوں کو بند کیا اور یہ تھا خاموشی کا حکم۔ موصوف نے اچھوتے انداز سے بات کا آغاز کیا، الٹی سیدھی حرکات کیں، ہنسایا، نقلیں اتاریں۔۔۔ کچھ وقت کے لیے کمرہ جماعت بالکل کسی اسٹیج ڈرامے کا منظر پیش کررہا تھا۔ یہ موصوف پروفیسر ڈاکٹر سراج خلجی صاحب تھے۔

میں سمجھ رہا تھا کہ یہ ہمیں تعلیم کا مضمون پڑھائیں گے لیکن ایسا نہیں تھا۔۔۔ وہ بس بولتے گئے۔۔۔ بولتے گئے۔۔۔۔ اور بولتے گئے۔۔۔ ان کا انداز دلچسپ تھا۔ کبھی وہ بہت ہنساتے اور کبھی اچانک سنجیدہ کردیتے۔ ان کی تمام باتوں کے پیچھے ایک ہی بنیادی مقصد سمجھ آیا۔۔۔ اور وہ یہ تھا کہ سوچو۔ سمجھو۔۔۔ پہچانو۔۔۔ آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ تم کیا کررہے ہو، کیا ہورہا ہے، کیا ہونے والا ہے۔۔۔ یونیورسٹی میں آ تو گئے ہو، بہت بڑا سپنا تھا نا، ہوگیا پورا۔۔۔ لیکن سوچا بھی ہے کچھ کہ کرنا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کوئی کام کرتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ ہمارا کیا پتا، اگلے پل ہوں یا نہ ہوں۔ ہمارے ملک میں اوسط عمر تقریبا 72 سال ہے۔ اگر آپ اس وقت بیس سال گزار چکے ہیں تو یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس وقت آپ کے پاس پچاس سال سے زیادہ کا وقت ہے اور آپ اپنے آنے والے پچاس سالوں کی منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے؟ کیوں یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ زندگی، موت کا کیا بھروسا۔

سراج خلجی صاحب نے بتایا کہ وہ جامعہ کے ابتدائی دنوں میں یہاں پڑھ چکے ہیں اور پھر پڑھایا بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب جامعہ کا ترانہ بنایا جارہا تھا تو وہی تھے جن کی آواز میں وہ نغمہ ریکارڈ ہوا۔ اب اگرچہ اس نغمے کی گونج کہیں سنی نہیں جاتی لیکن انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ پرانا ٹریک نکلوانے کی کوشش کریں گے۔ بقول ان کے، انہوں نے پچاس سے زائد ممالک کی پانچ سو سے زائد جامعات کا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے سال جب وہ ہندوستانی جامعات کا دورہ کرکے اپنے ایک مقالے کی تیاری کررہے تھے، تو وہاں ایک طالب علم سے پوچھا کہ تمہارے ہیروز کون ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ پہلے ہمارے ہیروز ممبئی فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگ "تھے" لیکن اب نہیں۔ پوچھا، تو اب کون ہیں؟ کہا، "کرکٹرز"۔ وجہ؟ اس لیے کہ فلمی ہیروز صرف پیسے کے لیے کام کرتے ہیں جب کہ کھلاڑی اپنے دیش کے لیے کھیلتے ہیں۔

موصوف کا لیکچر طول پکڑتا گیا، یہاں تک کہ ایک کلاس کا وقت گزر گیا، دوسری کا گزر گیا۔۔۔ تیسری کا شروع ہوگیا۔۔۔ اب ہمیں دوسری جگہ جاکر کلاس لینی تھی لیکن ان کا خطاب ختم ہوکر نہیں دیا۔ اکثر طلباء بیزار بھی ہوگئے تھے لیکن ان میں چونکہ مجھ سمیت کافی طلباء نئے تھے لہٰذا کچھ کہہ نہ سکے۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ یہ ورکشاپ آپ کو کیسا لگا، اس بارے میں تجاویز، آرا وغیرہ آپ ایک صفحے پر لکھ کر دے سکتے ہیں۔ چھٹی ہوئی تو سارے فورا کمرے سے باہر بھاگے۔ میں بھی چل دیا۔ جامعہ سے نکلنے سے پہلے میں نے سوچا کہ اپنے شعبے کی طرف سے چکر لگاتا ہوا جاؤں۔ جب میں وہاں پہنچا تو دفتر میں سراج خلجی صاحب کو دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ اور تو کسی نے شاید نہ کوئی رائے دی ہوگی نہ سراہا ہوگا، میں ہی کچھ لکھ دوں۔ فورا ایک صفحہ پر وہیں کھڑے کھڑے اپنی رائے قلم بند کی اور جب وہ کمرے سے نکلے تو میں نے ان کو پیش کردی۔ ساتھ میں ہمارے شعبے کے ایک استاذ بھی تھے۔ انہوں نے یہ جملہ ادا کیا کہ لیجئے، فیڈ بیک بھی آنا شروع ہوگیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ میں پہلا تھا جس نے کچھ لکھا (اور شاید واحد بھی)۔

نمائندگی کا منصب
جمعہ کے دن خبر ہوئی کہ جماعت میں سے دو نمائندے/ سی آر (Class Representative) منتخب کیے جائیں گے، ایک لڑکوں میں سے اور ایک لڑکی میں سے۔ ہمارے ہاں لڑکوں کی تعداد بڑھ کر سات تک پہنچ گئی ہے جبکہ لڑکیوں کی تعداد 25 کے قریب۔ (اس دن جو مغالطہ لگا اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے سال کے طلباء کے ساتھ دوسرے سالوں کے طلباء بھی آگئے تھے :P ) اب جب یہ سنا کہ ایک نمائندہ لڑکیوں اور ایک لڑکوں میں سے بنے گا تو سب لڑکوں نے مجھے آگے کردیا کہ یہی ہمارا C.R ہوگا۔ نہ مجھے تجربہ نہ کچھ اندازہ، لیکن میرا انکار بھی بے سود رہا۔ خیر، لڑکیوں میں سے ایک امیدوار امبرین شمع نے ہمیں کہا کہ ہم اسے ہی ووٹ دیں کیوں کہ اسے گذشتہ آٹھ سالوں سے تجربہ ہے۔

سنیچر کو تعلیم کا مضمون پڑھانے استانی صاحبہ آئیں تو انہوں نے جامعہ میں رہنے کے کچھ رہنما اصول بتائے۔ پھر نمائندوں کے چناؤ کا وقت آیا۔ لڑکیوں کی طرف سے دو اور لڑکوں کی طرف سے دو امیدوار کھڑے ہوئے، جن میں سے ایک میں زبردستی کا امیدوار تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں نمائندے لڑکیوں ہی میں سے منتخب کرلیے جائیں لیکن جس حساب سے جامعہ میں لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے (عمل دخل بڑھتا جارہا ہے :wink: )، اس سے لگتا ہے کہ آنے والے کچھ سالوں میں یہ جامعہ صرف خواتین تک محدود ہوجائے گی۔ :sad: اس لیے لڑکوں کو بھی آگے لایا جاتا ہے۔ میم (استانی صاحبان کو جامعہ میں عموما Ma'am کہا جاتا ہے) کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو صرف لڑکے ہی بہتر کرسکتے ہیں۔ بھلے سے جتنا کہا جاتا رہے کہ لڑکیاں، لڑکوں کے برابر ہیں یا ہر وہ کام کرسکتی ہیں جو لڑکے کرسکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کچھ کام صرف لڑکوں ہی کے کرنے کے ہوتے ہیں، اس لیے ہر جماعت میں سے ایک نمائندہ لڑکوں میں سے ضرور لیا جاتا ہے۔

ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔ لڑکیوں میں سے دو امیدوار، امبرین شمع اور زوبیہ (شاید) جبکہ لڑکوں میں سے دو امیدوار سعید جان اور عمار ضیاء یعنی کہ مابدولت۔ :k: امبرین کو ملے 21 ووٹ، زوبیہ کو 12۔ یوں لڑکیوں میں سے امبرین کامیاب ہوئی۔ لڑکوں میں سعید کو ملے 10 اور مجھے ملے 22۔ یوں میدان میں نے مارا۔ :P (ان تمام ہم جماعتوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے چنا)۔ لیکن جب ہمارے نمائندہ منتخب ہونے کا باضابطہ اعلان ہوگیا تو میں نے میم سے کہا کہ دیکھیں، میں کیونکہ ملازمت کرتا ہوں اس لیے زیادہ رک نہیں سکتا۔ کہنے لگیں، یہ تو بڑا مسئلہ ہوجائے گا کیوں کہ عموما ہم لوگ ایک بجے تک فارغ ہوتے ہیں تو میٹنگ وغیرہ ایک بجے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ دو یا تین بھی بج سکتے ہیں۔ میں نے کہا، مجھے اندازہ ہے اور میں اسی لیے C.R بننا نہیں چاہتا تھا، یہ مجھے زبردستی کھڑا کیا گیا ہے۔ میم نے دوسرے طلباء کی طرف نظر ڈالی اور پھر باری باری سب کو مسترد کرکے کہا کہ نہیں، فی الحال ایسا کریں کہ آپ ہی بن جائیں، وقت وغیرہ کا مسئلہ ہوا تو دیکھا جائے گا، ویسے بھی سعید تو ہیں ہی، وہ رک جایا کریں گے۔ :D

اسرائیل کے خلاف ریلی
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پچھلے دنوں جامعہ کراچی سے اسٹوڈڈینٹس الائنس کے زیرِ اہتمام ایک ریلی نکالی گئی جو جامعہ کے ایڈمن بلاک سے شروع ہوکر جامعہ سے باہر نکلی اور یونیورسٹی روڈ پر سماما شابنگ سینٹر پر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی میں طلباء کی کثیر تعداد نے شرکت کی (اس تعداد میں، مابدولت نہیں تھے کیوں کہ ہمیں دفتر پہنچنا تھا)۔ ریلی میں دو گدھے بھی لائے گئے تھے جنہیں اسرائیل اور امریکہ کے جھنڈے پہنائے گئے تھے۔ زین کے توسط سے کچھ تصاویر ملی ہیں، اس کے شکریے کے ساتھ وہ پیش کررہا ہوں۔
Ehtejaj - Karachi University

Ehtejaj - Gadhy

Comments