چھوٹا کراچی

مصروفیت کی انتہا
مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اِدھر جامعہ شروع ہونی ہے، اُدھر میرے ہاتھ پاؤں بندھ جانے ہیں اور میں نے کہیں کا نہیں رہنا۔ اب تک کچھ ایسی ہی صورتحال سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ صبح کوئی پونے سات بجے اٹھتا ہوں۔ نمازِ فجر ادا کرکے تیار ہوتا ہوں اور پھر ناشتہ کرکے گھر سے پونے آٹھ بجے تک نکل جاتا ہوں۔ پونے نو بجے تک جامعہ پہنچتا ہوں، وہاں سےایک بجے تک فارغ ہوکر دو بجے تک دفتر پہنچتا ہوں۔ رات آٹھ بجے کے بعد دفتر سے نکلتا ہوں تو نو بجے کے بعد گھر پہنچتا ہوں۔ اب کھانا کھاکر عادت سے مجبور کچھ دیر کمپیوٹر پر وقت گزاروں اور پھر عشاء پڑھ کر بارہ/ ایک بجے تک بستر پر۔ :sad: اب ایسے میں کوئی دوسرا کام کیا ہو؟

چھوٹا کراچی
تھکن، مصروفیت اپنی جگہ لیکن جامعہ کی زندگی کا الگ مزا ہے۔ کراچی کو چھوٹا پاکستان (Mini Pakistan) کہا جاتا ہے اور اگر میں جامعہ کراچی کو چھوٹا کراچی (Mini Karachi) کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ جامعہ میں داخل ہوں تو کسی طور ایک چھوٹے شہر سے کم کا ماحول نہیں ملے گا۔ جامعہ کراچی کا رقبہ تقریبا اٹھارہ سو ایکڑ ہے۔ اس چھوٹے کراچی میں آپ کو تقریبا ہر علاقے، ہر صوبے بلکہ پاکستان سے باہر دیگر ممالک کے طلباء بھی ملیں گے۔ یہاں عمارات بھی ہیں، باغات بھی ہیں، گاڑیاں بھی چلتی ہیں، جامعہ ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے رکشوں کی سہولت کے ساتھ ساتھ مخصوص اوقات پر گاڑیاں بھی چلا کرتی ہیں۔ غرض یہ کہ اس وسیع و عریض علاقے میں ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے۔ اس وقت جامعہ میں شیخ الجامعہ کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی انجام دے رہے ہیں۔
Peerzada Qasim Raza Siddiqui

سیاسی سرگرمیاں
جامعہ میں صرف یہی نہیں کہ آپ کو ہر قسم کے لوگ ملیں گے بلکہ مختلف قسم کے کام ہوتے بھی دکھائی دیں گے یہاں تک کہ سیاسی مظاہرے بھی۔ 13 جنوری 2009ء کو میں ابلاغِ عامہ (ماس کمیونی کیشن) کے شعبے کی طرف گیا۔ وہ پہلے کلیہ فنون (Arts Faculty) ہی میں واقع تھا لیکن اس سال اسے نئی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے جو جامعہ کے مرکزی (سلور جوبلی) دروازے سے کوئی بیس منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔جب میں وہاں پہنچا تو اسلامی جمعیت طلباء کے کارکن طلباء تیاریوں میں مصروف تھے۔ عمارت کے مرکزی دالان میں فلسطینیوں میں اسرائیلی مظالم کی تصاویر کی نمائش لگی تھی۔ عمارت میں داخل ہوتے وقت نیچے امریکہ کا جھنڈا چسپاں تھا جس پر آپ نے یقینی پاؤں رکھ کر گزرنا تھا۔ یہ بھی امریکہ سے مخالفت کا اظہار تھا۔ بعد میں، میں نے کلیہ فنون کی عمارت کے پاس اسرائیل کے خلاف مظاہرہ ہوتے بھی دیکھا۔

سوچا تھا کیا، ملا کیا
ابلاغِ عامہ کے شعبے کی طرف جانے کا مقصد اپنے داخلے کی تصدیق کرنا تھا۔ گو کہ میرا داخلہ شعبہ تعلیم میں ہوا تھا لیکن اس کے ساتھ دو ضمنی مضامین بھی منتخب کرنے تھے۔ میں نے اپنا رجحان دیکھتے ہوئے ابلاغِ عامہ (Mass Communication) اور بین الاقوامی تعلقات (International Relations) منتخب کیے تھے، اپنے شعبے میں داخلے کا فارم بھرتے ہوئے بھی یہی دو مضامین لکھے لیکن جب شعبہِ ابلاغِ عامہ پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس تو جگہ ہی نہیں ہے، داخلے نہیں دے رہے۔ جب ان کا اس جواب پر اصرار رہا تو واپس لوٹ آیا۔ فیصلہ کیا کہ اب اس کے بجائے "عمرانیات" (Sociology) کا مضمون پڑھوں، اس میں بھی میری دل چسپی ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ سے واپس آنے کے بعد عمرانیات کے شعبے کی طرف گیا۔ وہاں معلوم کیا تو پتا چلا، کچھ ہی دیر میں کلاس ہوگی۔ لہٰذا وہیں انتظار کرتا رہا اور پہلی تعارفی کلاس لے لی۔ یوں، لگ رہا ہے کہ اب میرے مضامین تعلیم، عمرانیات اور بین الاقوامی تعلقات ہوں گے۔

اِدھر سے اُدھر
جامعہ میں اگر آپ کی رہنمائی کے لیے کوئی ایسا طالب علم موجود نہیں جو پہلے سے یہاں زیرِ تعلیم ہو اور اسے ساری چیزوں کا اندازہ ہو تو آپ رُل بھی سکتے ہیں۔ بلکہ قوی امکان ہے کہ مکمل رہنمائی کے باوجود آپ کچھ دن رُلتے رہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک شعبے سے دوسرے شعبے، ایک عمارت سے دوسری عمارت، آپ کو مسلسل اِدھر سے اُدھر ہونا پڑتا ہے۔ پہلا ہفتہ بے حد تھکادینے والا ہوتا ہے۔ اس صورت میں مزید جب آپ جامعہ سے نکلنے کے بعد گھر جاکر آرام کرنے کے بجائے چھ/ سات گھنٹے کام کرنے کے لیے دفتر پہنچ جائیں۔ لیکن اِدھر سے اُدھر کی دوڑ آپ کو آس پاس کے تمام راستے سمجھادیتی ہے، ساتھ ہی اچھی خاصی ورزش بھی اسی بہانے ہوجاتی ہے۔

Comments