قصہ راہ بھٹکنے کا

ہم اپریل 1999ء میں محمود آباد سے شمالی کراچی منتقل ہوے۔ یہاں آکر میں نے چھٹی جماعت سے اسکول کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا۔ میرا، اسامہ اور دو بہنوں کا ایک اسکول میں داخلہ ہوا جو ہمارے گھر سے کافی فاصلہ پر تھا۔ اس وقت میری عمر کوئی 13 سال ہوگی۔ اسامہ مجھ سے ڈیڑھ سال چھوٹا اور دو بہنیں اس سے بھی ڈھائی، تین سال چھوٹی۔ پھر یہ کہ ہم لوگ اس سے پہلے گھر میں ہی رہے تھے، باہر کی دنیا زیادہ دیکھی نہیں تھی اس لیے کافی معصوم اور بھولے بھالے تھے (آپ بے وقوف بھی کہہ سکتے ہیں)۔  :wink: اب کچھ دن تو بس کے ذریعہ آنا جانا ہوا، پھر ابو نے کہا کہ راستہ اتنا زیادہ تو نہیں ہے، ایک دن میں صبح تم لوگوں کے ساتھ بس میں چلتا ہوں، واپسی میں کوئی شارٹ کٹ راستہ دیکھتا ہوں پیدل آنے جانے کے لیے۔ سو، ابو ایک صبح ہمارے ساتھ گئے اور واپسی میں ایک شارٹ کٹ راستہ تلاش کر آئے۔

اگلے دن ہم ابو کے ساتھ نکلے اسکول جانے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ دیکھو، اس گلی میں داخل ہونے کے بعد یہ سڑک سیدھی تمہارے اسکول کی سڑک سے ملتی ہے اور نشانیاں ذہن نشین کراتے ہوئے اس راستہ سے ہمیں لے گئے۔ پوچھا کہ سمجھ آیا؟ ہم نے کہا، ہاں۔ یہ تو بہت ہی سیدھا سا راستہ ہے۔ طے ہوا کہ اسکول سے گھر واپسی میں ہم پیدل مارچ کریں گے۔

اب اسکول کی گلی سے نکلتے ہی ہم ایک الجھن میں پڑگئے۔  :hmm: ہمارے سامنے دو گلیاں تھیں۔ سمجھ نہیں آیا کہ ہمیں کس میں جانا تھا۔ خیر، اللہ کا نام لے کر پہلی گلی میں چلے آئے۔ وہ گلی دو قدم کے بعد ہی بند تھی اور دائیں طرف مڑ رہی تھی۔ دراصل ہم نے جس سڑک پر جانا تھا، وہ دوسری گلی کی تھی اور ہم جو پہلی گلی میں داخل ہوے تو وہ پہلی گلی بھی دائیں طرف مڑ کر اسی سڑک سے ملتی تھی جس پر ہمیں چلنا تھا۔ لیکن ہماری بے وقوفی دیکھیے۔ ہمیں اب عین شاہراہ پر آکر بائیں طرف مڑنا تھا کہ وہ سیدھی ہمارے گھر کی طرف جارہی تھی لیکن ہم بائیں طرف مڑنے کے بجاے سیدھا سامنے والی گلی میں داخل ہوگئے۔ اور بس یہیں سے ہماری شامت آئی۔ وہیں ایک ہی دائرے میں گھومتے رہے اور حیران پریشان کہ خدایا، یہ کیا ماجرا ہے۔ جس گلی سے نکلتے ہیں، ایک ہی جگہ سامنے ہوتی ہے۔ :P

ایک موڑ پر آکر اسامہ نے کہا کہ دائیں طرف مڑنا ہے، میں نے کہا کہ نہیں بائیں طرف مڑنا ہے۔ یہاں بحث ہوئی تو وہ صاحب ضد میں یہ کہہ کر الگ ہوگئے کہ آپ نے جہاں جانا ہے، جاؤ، میں تو اپنے رستے پر جارہا ہوں۔ اب میرے ساتھ دو چھوٹی بہنیں، مئی کا مہینہ، شدید دھوپ، کاندھے پر اسکول بستہ کا بھاری بوجھ۔ کچھ سمجھ نہ آئے۔ :sad:

اسی طرح بھٹکتے پھرتے دیکھا تو سامنے سے اسامہ فٹ پاتھ پر چلتا آرہا تھا۔ اچانک ٹھوکر لگی اور گرپڑا۔ ہم نے کہا کہ دیکھو، ہم سے الگ ہوکر بھی اسی حال میں پھررہا ہے۔ آواز دے کر بلایا کہ بھئی یہیں آجا۔ خیر، پھر ہم اس بڑی شاہراہ پر جانکلے جہاں ٹریفک کی آمد و رفت تھی۔ بہنوں کے کاندھے پر بوجھ کا احساس کرکے میں نے ایک کا بستہ سنبھال لیا۔ اب دو بستوں کا بوجھ اٹھائے، اپنی مرضی سے جو سمت درست لگی، منہ اٹھاکر اسی سمت کو لے چلا۔ کافی دیر چلنے تک جب کوئی شناسا مقام نظر نہ آیا تو سوچا کہ کسی سے پوچھ کر ہی دیکھیں۔ اب ہمارے ہاں بچوں کو شروع سے ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ اغوا کرلیتے ہیں، اجنبی سے بات نہ کرو، برے لوگ ہوتے ہیں، پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ تو یہ ڈر بھی تھا دل میں کہ کوئی یہ جان کر کہ ہم رستہ بھٹک گئے ہیں، پکڑ کر ہی نہ لے جائے۔ بہرحال، ڈرتے ڈرتے ایک بندے سے پوچھا کہ جناب، یوپی موڑ کہاں ہے؟ بولا، سیدھا چلتے جاؤ، آجائے گا۔ ہم چلتے رہے، لیکن نہ آیا۔ خوف لیے ایک اور شخص سے پوچھا۔ اس نے بھی یہی کہا کہ سیدھا چلتے جاؤ، آجائے گا۔ ہم پھر چلتے رہے لیکن نہیں آیا۔ اب تو یہ اندیشے سر اٹھانے لگے کہ ہم نے جن دو بندوں سے پوچھا، یقینا وہ آپس میں ملے ہوے تھے اور انہوں نے جان بوجھ کر ہمیں غلط راستہ بتادیا ہے تاکہ جب ہم کسی سنسان مقام پر پہنچیں تو وہ ہمیں پکڑ لیں۔ :haha:

پھر ایک راہ سوجھی، ایک رکشہ روکا۔ اس کو کہا کہ یوپی موڑ جانا ہے۔ الو کا پٹھا، کہتا ہے، یوپی موڑ کہاں ہے؟ مجھے نہیں پتا۔ اور ہم انتہائی درجے کے احمق، اس سے کہا کہ یار، پتا تو ہمیں بھی نہیں ہے پر پوچھا ہے تو سب کہہ رہے ہیں کہ سیدھا چل کر ہی ہے۔ رکشے والا بولا، پندرہ روپے لوں گا۔ ہم نے کہا، ٹھیک ہے۔ پہنچائے تو سہی منزل پر۔ اب رکشے میں بیٹھے، اور رکشہ جیسے ہی چلا، یوپی موڑ آگیا۔ خون کھول اٹھا۔ اتنے مختصر فاصلے کے پندرہ روپے۔ شاید ہم نے جب رکشہ کیا تو ہم یوپی موڑ کے پاس ہی کھڑے تھے اور رکشے والے نے ہماری بے وقوفی کو بھانپ کر یہ کہا تھا کہ اسے یوپی موڑ کا نہیں پتا۔ :@

خیر، ہم گھر پہنچ گئے۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ دیکھا تو امی بے چاری پریشان ہوکر ہمیں تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکل رہی تھیں۔ ہم کوئی آدھ/ پون گھنٹہ بھٹکتے پھرے تھے۔ انہیں سارا قصہ سنایا۔ رات کو ابو آئے تو ان کو بھی بتایا۔ بڑی باتیں سننی پڑیں۔ اگلے دن ابو ہمیں صبح دوبارہ اسی راستہ سے اسکول لے کر گئے تو ہم پر انکشاف ہوا کہ ہم نے کل کہاں غلطی کی تھی۔ اس کے بعد سے میں اس اسکول میں دو سال تک زیر تعلیم رہا اور شاذ و ناذ ہی ایسا ہوا کہ میں بس میں آیا ہوں۔ سردی ہو یا گرمی، ہم اسی راستے سے پیدل آتے جاتے رہے۔ کوئی پندرہ منٹ چہل قدمی کا فاصلہ تھا۔

اب بھی اگر ہم رات کو کبھی ٹہلنے نکلیں تو اسی راستے پر چلے جاتے ہیں اور میں ہمیشہ وہ وقت یاد کرکے ہنستا ہوں جب ہم پریشان حال بھٹکتے پھر رہے تھے۔ جب میں اس کی آس پاس کی گلیاں دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ ہم کس طرح ایک ہی دائرے میں گھومتے پھر رہے تھے۔ اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس دن خیریت سے گھر پہنچ گئے تھے۔ والدین کو چاہیے کہ کبھی اس طرح اپنے بچے کو ایک دفعہ راستہ بتاکر نہ چھوڑیں اور نہ ہی بچپن سے اس کے دل میں زیادہ خوف بٹھائیں کہ باہر کی دنیا اتنی خطرناک ہے، کوئی بھی تمہیں پکڑ کر لے جائے گا۔ بلکہ بہتر ہوگا اگر اسے حفاظتی اقدامات اور تدابیر ذہن نشین کرائی جائیں۔ ورنہ کل کو کسی اور بلاگ پر بھی ایسی ہی کہانی پڑھنے کو مل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میٹرک کے امتحانات تھے۔ اردو کا پرچہ تھا۔ مضمون آیا کہ میری زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ۔ میں کبھی مضامین وغیرہ کے رٹے تو لگاتا نہیں۔ کچھ دیر سوچا کہ کون سا واقعہ لکھوں۔ اسی واقعہ کا خیال آیا اور لکھنا شروع کردیا۔ کمرہ میں جو ٹیچر تھیں، وہ ٹہلتے ٹہلتے میری طرف آئیں اور مجھے یہ واقعہ لکھتے دیکھا تو وہیں کھڑی ہوکر پڑھنا شروع کردیا۔ ادھورا ہی لکھا تھا کہ انہیں دوسری طرف توجہ دینی پڑی تو انہیں میری کاپی کا انتظار رہا کہ میں پرچہ دے کر جاؤں تو وہ کاپی میں پورا واقعہ پڑھا۔ انہیں بھی کافی دلچسپ لگا تھا۔

Comments