National Flag

راشد کامران نے پچھلے دنوں بی بی سی کی ایک تصویر کی طرف توجہ دلائی تھی جس میں ایک معصوم بچہ امریکی پرچم اپنے پاؤں تلے روند رہا تھا۔ یقینا اس بچے کو ادراک بھی نہیں ہوگا کہ وہ کیا کررہا ہے اور یہ عمل اس کے پیچھے موجود ہجوم میں سے کسی صاحب کی کارستانی ہوگا۔ یہاں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم اپنے دشمنوں کے خلاف دل کی بھڑاس اسی طرح نکال کر سمجھتے ہیں کہ ہم اپنا فرض ادا کرچکے۔ راشد کامران نے یہ نکتہ اچھا اٹھایا کہ اگر کل کو کوئی امریکی بچہ سعودی پرچم پر پیر رکھ کر کھڑا ہوجائے تو کیا ہم اعتراض نہیں کریں گے؟

میں یہ تحریر پڑھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ ہماری قوم اپنے ہی پرچم کا احترام نہیں کرتی تو دوسرے ملک کا پرچم کا احترام کیسے سیکھے؟ ہمارے ہاں تو پاکستانی پرچم پاؤں تلے روندا جاتا ہے اور کوئی اتنا خیال نہیں کرتا کہ پرچم اٹھاکر کنارے پر یا کسی مناسب جگہ رکھ دے۔ جشنِ آزادی کے موقع پر بڑے جوش و خروش سے جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں اور پھر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 14 اگست گزرنے کے بعد انہیں نوچ نوچ کر پھینک دیتے ہیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ چار پانچ سال پہلے تک جشنِ آزادی پر پلازا میں، میں اپنی منزل کو بہت سجاتا اور کافی جھنڈیاں لگاتا۔ ہم سے نیچے والے فلور پر جو گھر تھے، ان میں سے ایک گھر کی لڑکی اپنی منزل سجاتی تھی اور وہ شاید اس ضد میں کہ ہماری منزل زیادہ اچھی نہ سجی ہو، آتے جاتے ہماری جھنڈیاں اکھیڑ کر پھینک جاتی۔ غصہ تو بہت آتا لیکن میں نے کبھی اس کی منزل پر ایسا کام نہیں کیا۔ میں بس خاموشی سے نیچے گری ہوئی جھنڈیاں اٹھاکر دیوار پر لگے پائپ میں ایسے پھنسادیتا کہ دوبارہ نہ گریں۔ اب اگرچہ میں جھنڈیاں نہیں لگاتا کہ میرے نزدیک بے حرمتی زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی پرچم یا جھنڈی زمین پر گری نظر آئے تو اسے اٹھاکر چومتا ہوں اور کسی مناسب جگہ رکھ دیتا ہوں، اس بات کی پرواہ کیے بِنا کہ سامنے سے کون آرہا ہے یا کون دیکھ رہا ہے یا کوئی کیا سوچے گا۔ اگر آپ عمارت میں داخل ہوکر اوپر سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوں تو آپ کو ایسی کئی جھنڈیاں رکھی نظر آئیں گی۔

میں جانتا ہوں کہ ایک میرے کرنے سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہوجائے گا لیکن صرف ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم گنگنانے سے تو بہتر ہی ہوگا۔

Comments