end...

’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔!‘‘
میں ہڑبڑا گیا۔
یہ صبح صبح کون شور مچانے لگا؟ میں نے ناگواری سے اِدھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی۔
اس کے ہاتھ میں کلھاڑی تھی، لیکن وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ شاید ہانپ رہا تھا۔
میں ابھی کھنکھار کر اس سے گفتگو شروع کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ تن کر کھڑا ہوگیا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔!‘‘
کلھاڑی پھر چلنے لگی۔
’’سنو!‘‘
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔!‘‘
’’رک جاؤ!‘‘ میں پوری قوت سے چیخا۔
وہ ٹھٹک کر رک گیا، سر گھما کر اس نے میری طرف رخ کیا اور ایسے آنکھیں نکالیں جیسے پوچھ رہا ہو کہ جی حضرت، آپ نے مجھ سے کچھ فرمایا۔
میں نے خود کو ہلا جلا کر اسے اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی، لیکن مجھ میں بالکل طاقت نہیں تھی، اور نہ ہی ایسی ہوا چل رہی تھی کہ اسی کی مدد سے کچھ یہاں وہاں ہل جاتا۔
اس نے سر جھٹک کر میری طرف سے رخ پھیر لیا اور پھر فضا میں کلھاڑی بلند کی۔
’’میاں، کیا کر رہے ہو یہ؟‘‘ میں نے ایک بار پھر آواز نکالی۔
اب کی بار وہ میری جانب مڑا تو اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔
’’دیکھتے نہیں کہ کیا کر رہا ہوں،‘‘ اس نے تیوریاں چڑھا کر کہا۔
’’دیکھ رہا ہوں، جبھی تو حیران ہو رہا ہوں۔ بھلا ایسا بھی کوئی بے وقوف ہوتا ہے کہ جس شاخ پر بیٹھا ہو، اسی کو کاٹنے لگے۔‘‘
اس نے ایسے دیکھا جیسے اسے میری بات سمجھ نہ آئی ہو اور پھر دوسری طرف منھ کرلیا۔
’’تم اپنی ٹانگ کاٹ رہے ہو، احمق۔‘‘ میں نے غصے اور بے بسی سے کہا۔
اس نے اب مجھ سے لاتعلق ہونے میں بہتری سمجھی۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔!‘‘
وہ بے وقوف اپنے پاؤں کو درخت سمجھ کر کاٹتا رہا۔
میں اسے صدائیں دیتا رہا مگر اس نے سنی ان سنی کردیں۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔!‘‘
اس کا ہر وار اس کے پاؤں کو اس کے جسم سے الگ کر رہا تھا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔!‘‘
میں نے آنکھیں بند کرلیں۔
جب خاموشی چھائی تو میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ ہانپتا کانپتا مگر خوشی خوشی اپنی ٹانگ گھسیٹ کر جا رہا تھا۔
میں نے اوپر دیکھا۔
سورج کے ماتھے پر بل تھے۔


یومِ ارض، 22 اپریل 2017ء کے لیے۔

Comments