اُردو بلاگنگ کے لیے ۲۰۰۷ء سے ۲۰۰۹ء ایک سنہرا دور تھا۔ بیشتر لوگ بلاگنگ میں نئے تھے، جوش و ولولے اور کچھ کر گزرنے کے عزم سے بھرپور تھے۔ دوست احباب کو اُردو بلاگنگ کی طرف دعوت دی جاتی، ترغیب دلائی جاتی۔ اُردو بلاگروں کی مدد کے لیے کئی مراکز سامنے آئے، جیسے اُردو ویب، اُردو ٹیک، اُردو ہوم، وغیرہ، اور کئی لوگ بھی سامنے آئے، جیسے نبیل، زکریا، عمران حمید ، قدیر احمد، ساجد اقبال، وغیرہ۔ ورڈپریس اور بلاگ اسپاٹ کے سانچے اُردو میں ڈھالے جاتے، پلگنوں (plugins) پر کام ہوتا، اور مسابقت کے کسی حاسدانہ جذبے کے بغیر، بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی جاتی۔
وہ دور اُردو بلاگنگ کے لیے سنہرا دور اس لیے بھی تھا کہ نہ صرف اُردو بلاگنگ کے لیے کام ہو رہا تھا، بلکہ لکھا بھی بہت جا رہا تھا۔ اُردو جہاں والے جہانزیب اشرف، اُردو بلاگنگ والے راشد کامران، بدتمیز والے عمران حمید، اُردو ہوم والے نجیب پردیسی، ابو شامل والے فہد کیہر، بے طقی باتیں بے طقے کام والے شعیب صفدر، خاور کھوکھر، بیاض سمیت متعدد بلاگ بنانے اور پھر حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے والے قدیر احمد، اُردو ماسٹر والے ساجد اقبال، ڈفرستان کے ڈفر، شب والی حجاب، ہالہ والی امن ایمان، منفرد بلاگ کی منفرد بلاگر زینب، منظرنامہ والی ماورا، غرض کئی لوگ باقاعدگی سے لکھ رہے تھے۔ محب علوی لوگوں کو گھیر گھیر کر اُردو بلاگنگ کی طرف لا رہے تھے۔ وہ میرے لیے اُردو بلاگنگ کا ایک یادگار دور تھا۔
پھر جیسے کسی فلمی کہانی میں ایک فلمی سا موڑ آتا ہے، ویسے ہی اُردو بلاگنگ میں بھی ایک بڑا ڈرامائی موڑ آیا۔ اُس کا نام فیس بک تھا۔ اچھے خاصے بلاگ کرنے والے فیس بک کی طرف ایسے گئے کہ اُسی تک محدود ہوکر رہ گئے۔ ڈفر جیسا بلاگر جو ایک ماہ میں سات سات تحاریر لکھ ڈالتا تھا، اب سات مہینوں میں ایک تحریر لکھنے لگا۔ اب اُردو بلاگنگ کا حال یہ ہے کہ کہنے کو بیسیوں اُردو بلاگران ہیں، لیکن وہ اپنے بلاگ سے زیادہ فیس بک یا ٹوئٹر پر پائے جاتے ہیں، اور باقاعدگی سے لکھنے والے یا خاص طور پر بلاگنگ کے لیے کچھ کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔
کبھی کبھی کوئی پرانی تحریر پڑھتے ہوئے جب میں تبصروں پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ شاہدہ اکرام صاحبہ کے مشفقانہ تبصرے، بدتمیز اور قدیر کی نوک جھونک، ماورا اور امن ایمان کا آئے دن ایک نیا سانچہ اپنے بلاگ پر لگانا، ڈفر کا اُردو ماسٹر پر آکر تکنیکی مسائل کے حل دریافت کرنا، وغیرہ۔
یادوں کا خزانہ |
کبھی کبھی آرکائیو ڈاٹ آرگ کی وے بیک مشین کے ذریعے اور پیچھے چلا جاتا ہوں، اُن صفحات کو کھوجتا ہوں جو اب اپنی جگہ پر موجود نہیں ہیں۔ اُردو ماسٹر، بدتمیز، اُردو ٹیک، اُردو ہوم، وغیرہ کے مٹ جانے والے ویب صفحات اور بلاگ۔ کتنی یادیں! کتنے بلاگ! جنھیں پڑھ کر سوچتا ہوں کہ غالب نے تو کہا تھا
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
لیکن یہاں کتنے بلاگ ہیں جو فیس بک کی خاک تلے پنہاں ہوگئے ہیں۔
پسِ نوشت:
نہ میں مورخ، نہ یہ اُردو بلاگنگ کی تاریخ۔ چناں چہ اس میں تاریخی تسلسل اور حفظِ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ بہت سے ناموں اور کاموں کا ذکر بھی رہ گیا ہے۔ یہ صرف میری یادوں کا ایک گوشہ ہے۔
ہائے، یہ کچھ کچھ 'مرے بچپن کے دن' جیسا وقت لگتا ہے :)
ReplyDeleteجی۔۔۔ وہ جگجیت نے گایا تھا ناں کہ
Delete’’گئے دنوں کی بات ہے
فضا کو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں‘‘
میں جب بھی گذرے وقت کو دیکھتا یا سوچتا ہوں میرے دل میں اک ہوک سی اُٹھتی ہے ۔۔۔۔ جانے کیوں ۔۔۔۔۔ شاید اس لئے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ بہت کم تھا اور اس لئے بھی کہ تب کیا سنہرا دور تھا سب اکھٹے تھے ، بے لوث تھے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ آج نہ ہی اکھٹے ہیں اور نہ ہی بے لوث
ReplyDeleteنجیب بھائی، اگر آپ جیسے لوگ بھی یہ سوچیں گے تو ہم جیسے کچھ نہ کرنے والے کہاں جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگوں جس قدر ممکن ہوسکا، کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آپ جیسے سینئر احباب کے زیرِ سایہ ہم سب اکٹھے بھی رہیں گے اور بے لوث بھی۔
Delete