بچپن میں میرے پسندیدہ مشغلوں اور بہترین ایڈونچروں میں سے ایک ابّو کی کتب خانے میں سے کوئی ایسی کتاب چراکر پڑھنا تھا جسے پڑھنے سے ابّو نے منع کیا ہو یا میرے مانگنے پر دینے سے انکار کردیا ہو۔ چناں چہ جس دن ابّو اپنی الماری میں چابی لگی چھوڑ جاتے، اُس دن بڑے آرام سے میں الماری کھولتا، اپنی مرضی کی کتاب منتخب کرتا اور ایک وہیں ایک کونے میں بیٹھا خاموشی سے پڑھتا رہتا۔ اگر سمجھ نہ آتی تو دوسری کتاب نکال لیتا اور اگر سمجھ آنے کے ساتھ ساتھ پسند بھی آتی تو چوری سے اُس کو اپنی الماری میں منتقل کرلیتا۔ ایسی ہی کتابوں میں ایک غلام احمد پرویز کی کتاب ’’سلیم کے نام خط‘‘ کا ایک قدیم اور بوسیدہ نسخہ بھی تھا۔ اُس عمر میں وہ علمی مضامین یقیناً میرے سر پر سے گزرے ہوں گے لیکن خطوط نویسی میں دلچسپی کے باعث میں وہ فرضی خطوط زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش کرتا اور اپنی مرضی سے معانی اخذ کرتا۔
ایسی ہی ایک کتاب، اُردو کے ممتاز افسانہ نگار و مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی ’’مزید حماقتیں‘‘ بھی تھی۔ اُس کا ایک مضمون ’’شیطان، عینک اور موسمِ بہار‘‘ مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ شیطان کے دلچسپ کردار کے علاوہ لڑکیوں کا ذکر بھی تھا۔ شفیق الرحمٰن میرے ابّو کے پسندیدہ مزاح نگاروں میں سے ایک ہیں۔ شروع میں ابّو نے مجھے اس کتاب سے بھی دور رکھنے کی کوشش کی۔ کوئی دو سال قبل میں نے ’’حماقتیں‘‘ اور ’’مزید حماقتیں‘‘، دونوں کتب خریدیں۔ ان دونوں کتب کے مطالعے نے مجھے شفیق الرحمٰن کے مزاح کا گرویدہ کردیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ طب کے شعبے وابستہ ایک شخص (ایم بی بی ایس) جس نے عمر کا طویل حصہ فوج میں گزارا ہو، اُس کے قلم سے ایسے ایسے فن پارے نکلے۔
مجھے سفر کے دوران مطالعہ کرنے کی عادت ہے، لیکن سفر میں شفیق الرحمٰن کی مزاحیہ کتب کا مطالعہ خاصا مشکل ثابت ہوا اور اکثر مجھے مطالعہ روکنا پڑتا، کیوں کہ پے در پے قہقہے روکنا محال ہوجاتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک سفر میں، جب میں قہقہے بمشکل روک کر مذکورہ کتاب پڑھ رہا تھا تو ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ’’بہت عجیب بات ہے یار کہ آپ شفیق الرحمٰن کو پڑھ رہے ہیں اور ہنس نہیں رہے‘‘۔ یہ امن فاؤنڈیشن کے فیصل رحمان صاحب تھے، شفیق الرحمٰن کے شیدائی۔
آیندہ دنوں میں، میری کوشش ہوگی کہ ’’حماقتیں‘‘ اور ’’مزید حماقتیں‘‘ سے کچھ اقتباس پیش کرسکوں۔
Comments
Post a Comment