میری ڈائری
میں عمارت سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ مجھے ایک کم عمر لڑکی کی آواز سنائی دی جو اپنی امّی کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ میں تیزی سے باہر نکلا تو ایک پانچ، چھے سالہ لڑکی دوڑتی چلی آ رہی تھی اور اُس کے تعاقب میں اُس سے ڈیڑھ، دو سال بڑا ایک لڑکا تھا۔ لڑکی نے مجھے دیکھا تو پکاری: ’’انکل! بچائیں، یہ مار رہا ہے۔‘‘ میں نے لڑکے کو گھور کر دیکھا اور ڈانٹ کر بھگا دیا۔ لڑکی عمارت میں داخل ہوگئی اور لڑکا آگے بڑھ گیا۔ دو قدم بعد جو میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ لڑکا اُس لڑکی کے پیچھے بھاگتے ہوئے عمارت میں داخل ہوگیا۔ میں بھی واپس مڑا۔ لڑکے نے اُس لڑکی کو پکڑا ہی تھا کہ میں اُس کے سر پر پہنچ گیا۔ اُسے کھینچ کر لڑکی سے الگ کیا اور جب اُس نے میری طرف مڑ کر مجھے گھورا تو میرا ہاتھ گھوما اور لڑکے کے گال پر تڑاق سے ایک تھپڑ پڑا۔
اُس کی ڈائری
میں شام میں گھر سے نکلا۔ امّی نے کہا کہ دُکان سے بسکٹ لے آؤ۔ میں دُکان پر پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے محلّے کی ایک لڑکی بھی آگئی۔ وہ مجھ سے عمر میں کچھ ہی چھوٹی تھی۔ میں پہلے آیا تھا اس لیے پہلے سودا لینے کا حق میرا تھا لیکن لڑکی نے شور مچانا شروع کردیا اور دُکان دار نے بھی پہلے اُسی کی طرف توجہ کرلی۔ مجھے یہ بات بری لگی لیکن میں خاموش رہا اور اُسے ناپسندیدگی سے گھورنے پر اکتفا کیا۔ اُسے اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ وہ اپنی مطلوبہ اشیا لے کر جب واپس جانے کے لیے پلٹی تو مجھے منھ چڑایا اور دھکا دیتی ہوئی بھاگ گئی۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ میں اُس کے پیچھے بھاگا۔ پتا نہیں کیوں، لیکن بس بھاگا! میں نے اُس وقت تک بدلہ لینے کا طریقہ نہیں سوچا تھا۔ اُس نے مجھے پیچھے آتے دیکھا تو اپنی امّی کو پکارنے لگی۔ ڈرپوک اور بزدل بچّے ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ میں اُس لڑکی تک پہنچا ہی تھا کہ ایک انکل آگئے اور اُنھوں نے مجھے ڈانٹ کر دور کردیا۔ مجھے برا تو بہت لگا لیکن وہ مجھ سے بڑے تھے، طاقت ور تھے۔ میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے جاتے جاتے مڑ کر دیکھا تو انکل آگے بڑھ چکے تھے۔ میں واپس اُس لڑکی کے پیچھے عمارت میں دوڑا۔ میں نے اُسے سیڑھیوں پر پہنچ کر پکڑا ہی تھا کہ وہ انکل پھر پہنچ گئے اور اُنھوں نے مجھے سختی سے کھینچا اور ڈانٹنے لگے۔ میں نے اُنھیں بتانا چاہا کہ اس جھگڑے کی ابتدا کس نے کی تھی۔ میں نے منھ کھولا ہی تھا کہ اُنھوں نے میرے گال پر زور دار تھپڑ مارا۔ میرے منھ سے کچھ بے معنی آوازیں نکلیں اور آنکھوں میں شرمندگی، غم، غصّے اور بے بسی کے آنسو لیے میں وہاں سے دوڑ پڑا۔
گھر آکر میں ایک کونے میں چھپ گیا اور بہت رویا۔ امّی مجھے آوازیں دیتی رہیں مگر میں نے جواب نہیں دیا۔ کیا جواب دیتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سب لوگ لڑکیوں کی حمایت کرتے ہیں اور لڑکوں کو مارتے ہیں۔ خود کے کرتوت برے ہیں اور ہمیں بھی اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔ کیوں ہمیں چھوٹا سمجھ کر صفائی کا موقع نہیں دیا جاتا اور ہمیشہ اپنی مرضی، اپنی رائے تھوپ دی جاتی ہے۔ میں جب بڑا ہوجاؤں گا تو سب سے بدلہ لوں گا؛ اپنی بے عزتی کا بدلہ، لڑکوں کی بے عزتی کا بدلہ۔ میں اسی غم اور غصّے کی کیفیت میں روتے روتے سو گیا۔
میری ڈائری
تھپڑ کھا کر وہ لڑکا تو بھاگ گیا لیکن ’تڑاق‘ کی آواز جیسے مجھے اپنے دل سے بھی آئی۔ ایک عجیب احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ ایک بچّے کو گال پر تھپڑ مار دیا؟ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا، مجھے اپنی بات سمجھانا چاہتا تھا، میں نے اُسے دو لمحے کا موقع نہیں دیا؟ افسوس ہے مجھ پر (ہاں! افسوس ہو مجھ پر)۔
تڑاق! تڑاق! تڑاق!
مجھے اپنا بچپن یاد آیا جب میں نے تھپڑ کھائے تھے۔ ہر تھپڑ ذلت کی کیچڑ سے لتھڑا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ہر تھپڑ اپنے سے طاقت ور اور معاشرے کے خلاف بغاوت کے جذبات اُبھارتا تھا۔ ہر تھپڑ انتقام کی آگ سلگا دیتا تھا۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ تعلیم نے مجھے سکھایا کہ مار پٹائی کسی طرح بھی تعلیم و تربیت کا درست طریقہ نہیں۔ یہ تو بگاڑ کا سبب ہے۔ بچّوں میں بغاوت، خود سری اور سرکشی کے جراثیم پیدا کرنے کی جڑ ہے۔ تب میں نے عزم کیا تھا کہ کم عمروں پر ہاتھ اُٹھانے سے خصوصی پرہیز کروں گا اور ہمیشہ محبت و شفقت کے ساتھ سمجھایا کروں گا۔ پھر میرا یہ عزم کیا ہوا؟ میں کیوں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا؟
تڑاق! تڑاق! تڑاق!
کیوں میں نے اپنے بزرگوں کی روایت دہرائی؟ کیوں میرے اندر کا وحشی پن باہر آگیا؟ میں اپنی اولاد کے ساتھ جس طرح پیش آنا پسند کرتا ہوں، کسی دوسرے کی اولاد کے ساتھ اُسی طرح کیوں نہیں پیش آیا؟ خدا جانے اُس بچّے کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ اگر وہ غلط تھا، تب بھی میرا یہ سلوک کسی طرح مناسب نہیں تھا، اور اگر وہ صحیح تھا تو؟
اگر وہ صحیح تھا تو میں ایک معصوم کم عمر بچّے پر تھپڑ مارنے جیسے جرم کی صفائی کیسے دے سکوں گا۔
تڑاق! تڑاق! تڑاق!
میرے کان میں تھپڑ کی آواز گونجنے لگی۔
میرا دل کیا کہ میں واپس جاؤں، اُس بچٓے کو تلاش کروں اور اُس سے کہوں کہ وہ مجھے تھپڑ مارے، اور مارے، مارتا جائے، میرے گال پر تھپڑوں کی برسات کرتا رہے، تب تک:
تڑاق! تڑاق! تڑاق!
مجھے اپنا بچپن یاد آیا جب میں نے تھپڑ کھائے تھے۔ ہر تھپڑ ذلت کی کیچڑ سے لتھڑا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ہر تھپڑ اپنے سے طاقت ور اور معاشرے کے خلاف بغاوت کے جذبات اُبھارتا تھا۔ ہر تھپڑ انتقام کی آگ سلگا دیتا تھا۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ تعلیم نے مجھے سکھایا کہ مار پٹائی کسی طرح بھی تعلیم و تربیت کا درست طریقہ نہیں۔ یہ تو بگاڑ کا سبب ہے۔ بچّوں میں بغاوت، خود سری اور سرکشی کے جراثیم پیدا کرنے کی جڑ ہے۔ تب میں نے عزم کیا تھا کہ کم عمروں پر ہاتھ اُٹھانے سے خصوصی پرہیز کروں گا اور ہمیشہ محبت و شفقت کے ساتھ سمجھایا کروں گا۔ پھر میرا یہ عزم کیا ہوا؟ میں کیوں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا؟
تڑاق! تڑاق! تڑاق!
کیوں میں نے اپنے بزرگوں کی روایت دہرائی؟ کیوں میرے اندر کا وحشی پن باہر آگیا؟ میں اپنی اولاد کے ساتھ جس طرح پیش آنا پسند کرتا ہوں، کسی دوسرے کی اولاد کے ساتھ اُسی طرح کیوں نہیں پیش آیا؟ خدا جانے اُس بچّے کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ اگر وہ غلط تھا، تب بھی میرا یہ سلوک کسی طرح مناسب نہیں تھا، اور اگر وہ صحیح تھا تو؟
اگر وہ صحیح تھا تو میں ایک معصوم کم عمر بچّے پر تھپڑ مارنے جیسے جرم کی صفائی کیسے دے سکوں گا۔
تڑاق! تڑاق! تڑاق!
میرے کان میں تھپڑ کی آواز گونجنے لگی۔
میرا دل کیا کہ میں واپس جاؤں، اُس بچٓے کو تلاش کروں اور اُس سے کہوں کہ وہ مجھے تھپڑ مارے، اور مارے، مارتا جائے، میرے گال پر تھپڑوں کی برسات کرتا رہے، تب تک:
جب تک اُس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوجائے؛
جب تک اُس کے دل کی سختی ایک بار پھر نرم نہ پڑ جائے؛
جب تک وہ ایک بار پھر معصوم نہ بن جائے۔
مبنی بر حقیقت تحریر، اس تحریر کی یہ خوبی انتہائی متاثرکن ہے کہ یہ بیک وقت کئی معاشرتی پہلووں اور ان پر ہمارے مزاج اور رویے کو عیاں کرتی ہے۔ غلط فہمی کی بنا پر لیے جانے والے فوری فیصلے، بچوں کے ساتھ ہمارے رویے، خود ہماری تربیت اور ماحول کے ہم پر اثرات، ایک نازیبا رویے کی ہمارے عمر بھر کے رویے پر پڑجانے والی چھاپ، ضمیر کی خلش، لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین روا رکھے جانے والے امتیازی رویے( جن میں کبھی لڑکوں اور کبھی لڑکیوں کا پلہ بھاری ہوتا ہے، اور کوئی بھی مساوی برتاو کی مثال قائم نہیں کرپاتا)، اس کے علاوہ ایک بہترین کہانی اور عمدہ منظرنامہ
ReplyDeleteمبنی بر حقیقت تحریر، اس تحریر کی یہ خوبی انتہائی متاثرکن ہے کہ یہ بیک وقت کئی معاشرتی پہلووں اور ان پر ہمارے مزاج اور رویے کو عیاں کرتی ہے۔ غلط فہمی کی بنا پر لیے جانے والے فوری فیصلے، بچوں کے ساتھ ہمارے رویے، خود ہماری تربیت اور ماحول کے ہم پر اثرات، ایک نازیبا رویے کی ہمارے عمر بھر کے رویے پر پڑجانے والی چھاپ، ضمیر کی خلش، لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین روا رکھے جانے والے امتیازی رویے( جن میں کبھی لڑکوں اور کبھی لڑکیوں کا پلہ بھاری ہوتا ہے، اور کوئی بھی مساوی برتاو کی مثال قائم نہیں کرپاتا)، اس کے علاوہ ایک بہترین کہانی اور عمدہ منظرنامہ
ReplyDelete