لوگوں کو بڑے انوکھے اور عجیب وہم ہوتے ہیں۔ یہ وہم کسی خاندانی روایت، مذاق میں کہی گئی بات، مشاہدے اور تجربات، مذہبی روایات، یا اتفاقات کی دَین ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم دوسروں کے وہموں کا تمسخر اُڑاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اُس جیسے وہم کی کوئی دوسری صورت ہمارے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں چھپی ہے اور ہم اُس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔
کہیں کہیں توہمات کی جڑ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ میری کمزور یادداشت اگر میرا ساتھ دے تو میں نے کسی مقام پر پڑھا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے کسی صحابی کو تبلیغِ دین کے لیے دوسری قوم کی طرف بھیجتے وقت ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ وہاں جن توہمات کی جڑ مضبوط ہو اور اُن میں شرک یا کفر نہ ہو تو اُن کی مخالفت نہ کرنا کیوں کہ اُنھوں نے اگر تمھاری بات مان بھی لی اور بعد میں اُن کے وہم کے مطابق کوئی عمل وقوع پذیر ہوا تو وہ دینِ اسلام کو غلط سمجھیں گے۔
میں بھی عموماً فضول اوہام اور توہمات مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے قطعی نظر انداز کر دیتا ہوں؛ لیکن، کہیں نہ کہیں کوئی وہم مجھ میں بھی ڈیرا جمائے بیٹھا ہے۔ ایسا ہی ایک وہم کوئی نیا کام کسی اہم یا مقبول تاریخ سے شروع کرنے کا ہے۔ اگرچہ یہ اُس نوعیت کا وہم نہیں ہے کہ اگر میں کسی مقبول یا مشہور تاریخ میں کوئی نیا کام شروع نہیں کروں گا تو مجھے نقصان ہوگا؛ بل کہ، یہ وہم صرف اتنا ہے کہ میرے نئے کام کا آغاز کسی معروف دن سے ہو تاکہ میرے کام کو بھی اہمیت حاصل ہو۔ ہر سال جب وہ اہم تاریخ آئے تو اُس دن میرے پاس بھی اُس تاریخ کو اہم سمجھنے کی کوئی ذاتی وجہ ہو۔ نقصان یا فائدے کا اس خیال میں کوئی دخل نہیں؛ بہ ہر حال وہم تو ہے ہی۔ عرصہ دراز پہلے جب میں روزنامچہ تحریر کیا کرتا تھا تو ہر نئی ڈائری کا آغاز اپنی تاریخِ پیدائش یا کسی دوسرے اہم دن سے کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ میری پیدائش عید الفطر کے پہلے روز، جمعہ کے دن ہوئی اور پیدائش کے دن کا خاص ہونا ہی اُکساتا ہو کہ ہر اہم یا نیا کام کسی نئی تاریخ سے شروع کیا جائے۔
کیا آپ کو بھی ایسا کوئی وہم ہے؟ کیا آپ نے اپنے وہم کے مطابق واقعات کا مشاہدہ کیا ہے؟
Comments
Post a Comment