اصرار ہے کہ ’’یومِ ماں‘‘ پر کچھ تحریر کروں۔ میں نے پہلے کبھی اس موضوع پر لکھنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ جب لکھنے کا سوچنے بیٹھا تو کوئی آغاز ہی سمجھ نہ آسکا۔ ماؤں کے بارے میں کئی جذباتی تحاریر پڑھی ہیں۔ مجھے اُن میں لفاظیت زیادہ نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تعریف کرنے کے لیے حقیقت بیان کرنے کی بہ جائے جذباتی انداز اور لفاظی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس رجحان کے پیشِ نظر، ماں پر لکھی جانے والی دیگر تحاریر کی طرح اس تحریر کا آغاز بھی کچھ یوں ہونا چاہیے تھا۔
کوئی پریشانی، کوئی دکھ ہو، ماں کے گوش گزار کرتے ہی، ہم کلام ہوتے ہی،اک راحت سی روح تک اترتی، میٹھی سی تاثیر رگوں میں سرایت کرجاتی ہے۔ ماں کی بےپایاں محبت لفظوں میں پرونا بہت مشکل ہے، ماں کی الفت و محبت اپنے اندر اک متنوع جہاں سموئے بحرِ بےکراں کی مانند ہے، جس کی گیرئی و گہرائی کا درست اندازہ نا ممکن ہے، ماں کے رشتے میں اس پاک پروردگار نے کیا کیا گھول ملادیا کہ صرف اک ماں کے وجود کے ہونے سے، کڑی دھوپ سی زندگی، ٹھنڈی گھنیری چھاؤں سی لگتی ہے۔ماں تمام لطیف جذبوں سے مجتمع، مجسمِ محبت ہی محبت ہے، ماں کے رشتے کا کومل دھاگہ، اولاد کی روح کے ریشے سے جڑا ہوتا ہے، اسی لیے اولاد کی ذرا سی تکلیف پہ، ریت پہ مچھلی کی طرح تڑپ اٹھتی ہے، ہمہ وقت دعاؤں کے پھول نچھاور کرتی، اولاد کے لیے باعثِ راحت تو ہے ہی، رب کی رضا کے حصول کا بھی سبب ہے۔
لیکن مجھے ایسی عبارات بے جان لگتی ہیں؛ ایسے مُردوں کی طرح جنھیں آخری رسومات کے لیے اس قدر تیار کیا جاتا ہے جیسے ابھی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور خود الوداعی خطاب کریں گے۔
ماں کی محبت سے انکار نہیں۔ اولاد کو کوئی تکلیف پہنچے تو ماں بے تاب ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کو ہر حال میں پریشانیوں سے دور اور خوش دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن مجھے آج کل کی ماؤں کو دیکھ کر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مادّہ پرست دور نے ماؤں کی مامتا پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔ شاید سماجی و معاشی مجبوریاں اور ضروریات ہمارے رشتوں میں گوندھے جذبات کو کم سے کم کیے جا رہے ہیں۔ دوسری کمی موجودہ دور کی ضروریات اور حالات پیشِ نظر رکھتے ہوئے تربیت کا معاملہ ہے۔
ایشیائی ممالک میں ماؤں کا کردار زیادہ اہم ہے۔ ماؤں کے ناتواں کندھوں پر جو بوجھ ہے، اُس کا اندازہ ماں بنے بغیر لگانا ممکن نہیں۔ یومِ ماں کے موقع پر میں تمام ماؤں کو اُن کے اہم معاشرتی و سماجی کردار پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ موجودہ اور مستقبل کی مائیں اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے پہلے خود خصوصی راہ نمائی اور تربیت ضرور حاصل کریں گی تاکہ اُن کی اولاد زندگی کے چیلنجوں کا بھرپور مقابلہ کرسکے۔
از احمر
ReplyDeleteجیسا کہ اپ نے کہا ۔۔۔۔
لیکن مجھے آج کل کی ماؤں کو دیکھ کر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس مادّہ پرست دور نے ماؤں کی مامتا پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔ شاید سماجی و معاشی مجبوریاں اور ضروریات ہمارے رشتوں میں گوندھے جذبات کو کم سے کم کیے جا رہے ہیں
۔۔۔
یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہو ہے کیوں کہ پچھلی سے پچھلی نسل کی مائوں کو اپنے "حقوق" سے آگاہ نہیں تھیں