The Trifecta of Civil Resistance: Unity, Planning, Discipline

عوامی مزاحمت کے تین حقائق: اتحاد، منصوبہ بندی، نظم و ضبط
تحریر: ہارڈی میری مین (اوپن ڈیموکریسی)
ترجمہ و تلخیص: عمار ابنِ ضیا

تین صفات دنیا بھر کی تشدد سے پاک تحریکوں کی کام یابی اور ناکامی کے درمیان فرق قائم کرسکتی ہیں: اتحاد، منصوبہ بندی، اور تشدد سے پاک نظم و ضبط۔
آخر کیا چیز تشدد سے پاک عوامی مزاحمتی تحریکوں کو مؤثر بناتی ہے؟
اگر ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ سیاست میں ’’طاقت کبھی دی نہیں جاتی، بلکہ ہمیشہ لی جاتی ہے‘‘، تو لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تشدد سے پاک تاریخی تحریکیں اس لیے کام یاب ہوئیں کہ، کسی نہ کسی طرح، انھوں نے اپنے مخالفین کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقت سے کام لیا۔
یہ نتیجہ وسیع پیمانے پر پائے جانے والے اس مفروضے سے متصادم ہے کہ مادّی وسائل پر قابو اور تشدد کی صلاحیت سے طاقت جنم لیتی ہے۔ یہ نتیجہ اس مفروضے سے متعلق کئی سوالات بھی اٹھاتا ہے۔ اگر یہ مفروضہ درست تھا تو تشدد سے پاک تحریکوں کو اپنے سے بہتر مسلح اور وسائل کے حامل مخالفین کے خلاف واضح طور پرناکام ہوجانا چاہیے تھا۔ تاہم، تاریخ تشدد سے پاک کئی کام یاب جدوجہدوں سے روشناس کرواتی ہے جو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک چلیں، جو دوسروں سے ممتاز تھیں اور جن کی وجوہات بنی نوع انسان کی طرح متنوع تھیں۔ کچھ مثالیں درج ہیں:
  • ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائی میں ہندوستانیوں نے بڑے پیمانے پر تحریکِ عدم تعاون (معاشی بائیکاٹ، اسکول بائیکاٹ، ہڑتالیں، ٹیکس سے انکار، عوامی نافرمانی، استعفے) میں الجھاکر رکھ دیا جو ہندوستان پر حکومت کے قابل نہ چھوڑنے کی کھلی دھمکی تھی، اور آخرکار برطانویوں کو ہندوستان چھوڑنے پر قائل کرلیا، اور یوں آزادی حاصل کی؛
  • نیشولی لنچ کاؤنٹر سٹ ان کی یادگار
    نیشنل سول رائٹس میوزیم، امریکا
  • ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائی کے دوران، امریکی شہری حقوق کی تحریک نے عدم تشدد مہمات، مثلاً مونٹگومیری بس بائیکاٹ، نیشولی لنچ کاؤنٹر سٹ ان،  چلاتے ہوئے مساوی حقوق حاصل کرنے میں فتح حاصل کی، کہ ان تحریکوں نے اداروں کی سطح پر الگ نظام کی کم زوریوں کو اُجاگر کیا اور ملک بھر میں حامیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا؛
  • ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران، کیلے فورنیا کے انگوری باغوں کے خلاف ہڑتالوں اور بائیکاٹ جیسے حربوں کے کام یاب استعمال کے ذریعے یونائیٹڈ فارم ورکرز یونین ایک چھوٹی، مالی امداد سے محروم ایک مقامی تنظیم سے قومی سطح پر اُبھر کر سامنے آئی؛
  • ۱۹۸۶ء میں فلپائن میں ، امریکا کے حمایت یافتہ آمر فرڈنینڈ مارکوس کے خلاف کارکنوں نے منحرف فوجیوں کے ساتھ مل کر لاکھوں لوگوں کا جلوس نکالا۔ اس تشدد سے پاک بغاوت کی روشنی میں اختیارات تیزی سے کم ہوتے دیکھ کر مارکوس ملک سے فرار ہوگئے؛
  • ۱۹۸۸ء میں، چلّی کے باشندوں نے اوگسٹو پنوشے کی سفاکانہ آمریت کے خلاف خوف پر قابو پایا، مہم چلائی اور اس کے خلاف مظاہرے کیے۔ ان اقدامات نے پنوشے کی حمایت کو اس قدر ٹھیس پہنچائی کہ بحران کے عروج کے زمانے میں خود اس کے اپنے فوجی ساتھی بھی اس کے ساتھ وفادار نہیں رہے، اور اسے اقتدار سے علاحدگی پر مجبور کردیا گیا؛
  • ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۹ء کے دوران پولش باشندوں نے تحریکِ یکجہتی کے ایک حصے کے طور پر ایک آزاد ٹریڈ یونین منظّم کی اور اپنا ملک سویت حکمرانی سے واپس حاصل کرلیا؛
  • ۱۹۸۹ء میں، انقلابِ مخمل (ویلویٹ ریولوشن) کے نام سے معروف ہونے والے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں بالآخر چیکوسلواکیا کو کمیونزم سے پُرامن منتقلی کا سبب بنیں۔ ایسے ہی اقدامات مشرقی جرمنی، اور ۱۹۹۱ء میں لٹویا، لتھوانیا اور ایسٹونیا میں پُرامن منتقلی کا باعث بنے؛
  • ۱۹۸۰ء کی دہائی سے شروع ہونے والی ہڑتالوں، بائیکاٹ، عوامی نافرمانی اور بیرونی پابندیوں نے ۱۹۹۰ء کے دہائی کے اوائل میں جنوبی افریقا میں نسلی امتیازات کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا؛
  • اگلی دہائی میں، سرب (۲۰۰۰ء)، جورجین (۲۰۰۳ء) اور یوکرانی (۲۰۰۴ء) فراڈ انتخابات کے نتائج کے خلاف مزاحمت کے باعث بادشاہت کے خاتمے میں کام  یاب رہے؛
  • ۲۰۰۵ء میں، لبنانیوں نے بڑے پیمانے پر تشدد سے پاک مظاہروں کے ذریعے شامی فوجیوں کے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ کردیا؛
  • ۲۰۰۶ء میں، نیپالیوں نے بڑے پیمانے پر تحریکِ نافرمانی کے ذریعے عوامی حکمرانی کی بحالی پر مجبور کردیا؛
  • ۲۰۰۷ء سے ۲۰۰۹ء کے دوران، پرتشدد شورش اور فوجی حکمران کی موجودگی میں، پاکستانی وکلا، سول سوسائٹی گروہوں، اور عام شہریوں نے حکومت کو کام یابی سے اس بات پر مجبور کردیا کہ آزاد عدلیہ بحال اور ریاست میں نافذ ہنگامی حالت اٹھالی جائے۔

اگر لوگ حکم نہ مانیں، تو حکمران حکومت نہیں کرسکتے

یہ اور دیگر عوامی مزاحمتی تحریکیں کام یابی سے ہم کنار ہوئیں کیوں کہ وہ طاقت کے بارے میں ایک حقیقی بصیرت پر مبنی تھیں، کہ معاشرے کی تقریباً تمام تنظیمیں، ادارے، اور نظاموں کا انحصار بڑی تعداد میں عام افراد کی رضامندی، تعاون اور فرمانبرداری پر ہوتا ہے۔ اسی لیے، اگر عوام ایک منظّم اور حکمتِ عملی سے اپنی رضامندی اور تعاون واپس لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ حکمرانی کی طاقت چھین سکتے ہیں۔ جب عوام حکم بجا نہیں لاتے تو صدور، ناظمین، چیف ایگزیکٹوز، جنرل، اور دیگر ’’اربابِ اختیار‘‘ آزادانہ طاقت کے ساتھ حکمرانی نہیں کرسکتے۔
ہڑتالیں، بائیکاٹ، بڑے پیمانے پر مظاہرے، متوازی اداروں کے قیام، اور حقیقی طور پر دیگر سینکڑوں تخلیقی اقدامات جیسے تشدد سے پاک طور طریقے ایسے معاملات میں بنیادی آلۂ کار رہے ہیں۔ اخلاقی وجوہات کی بنا پر ہی ضروری نہیں بل کہ ان کا استعمال عملی وجوہات کے لیے بھی کیا گیا۔ عوامی مزاحمت کا راستہ اپنانے والے افراد دیگر ممالک میں یا خود اپنی ہی تاریخ میں اس سے ملتی جلتی حکمتِ عملی دیکھ چکے تھے، اور اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ ایسی مزاحمت اُن کے پاس دست یاب راستوں میں سے کام یابی کا بہترین راستہ ہے۔

مہارتیں اور حالات

تاہم، تشدد سے پاک ان کام یاب تحریکوں کے درمیان، تاریخ اور دنیا ناکام یا غیر نتائج بخش تحریکات کی مثالیں بھی پیش کرتی ہے۔ دنیا نے جس سال پولینڈ اور چیکوسلواکیہ کے ظلم و ستم سے پاک انقلابات کا مشاہدہ کیا، اسی سال تیانانمین اسکوائر کی خونریزی بھی دیکھی۔ گزشتہ دہائی میں، برما، زمبابوے، مصر اور ایران میں لوگوں کی بڑی تعداد نے عدم تشدد پر مشتمل حکمتِ عملیاں اپنائیں، لیکن ان تحریکات کے مقاصد تاحال حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں۔ مشرقی تیمور میں خود ارادیت کے حصول کی کام یاب جدوجہد میں عوامی مزاحمت ناگزیر تھی لیکن دیگر خطوں ، فلسطین، مغربی پاپوا، مغربی صحارا اور تبت، میں قابض طاقتوں کے خلاف یہ جدوجہد تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔
تحریر اسکوائر، مصر
ان کے اور دوسرے واقعات کے درمیان تفریق کی کیا وجوہات ہیں؟
ان اور دیگر تحریکوں کو کام یاب یا ناکام بنانے والے عوامل سے متعلق معقول اور باخبر افراد کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے۔ [۱] ہر ایک صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کی وجوہات و اثرات کے مابین تعلق قائم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ وہ دلائل جو میں اکثر اسکالروں، صحافیوں اور دیگر سے سنتا ہوں کہ ان اور دیگر پُر زور تحریکوں کے دائرہ کار اور نتائج بڑے پیمانے پر ان تحریکوں کے ڈھانچے، حالات اور استثنائی صورتِ حال پر منحصر کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، دلائل دیے جاتے ہیں کہ تشدد سے پاک تحریکات صرف ان ہی معاشروں میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں جہاں کوئی ظالم و جابر مہلک طاقت استعمال کرنا نہ چاہتا ہو۔ بعض لوگ دعوا کرتے ہیں کہ مخصوص معاشی معیار (مثلاً، اقتصادی نظریہ، آمدنی کی سطح، مال و دولت کی تقسیم، متوسط طبقے کی موجودگی) اور تعلیمی درجات کام یاب تحریکات کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بعض کا دعوا یہ ہے کہ تحریک کے نتائج طے کرنے میں عالمی طاقتوں اور علاقائی حکمرانوں کا بھی اثر ہوتا ہے۔ایک فرد نسلی تنوع، سیاسی و ثقافتی تاریخ، آبادی کے حجم، اور زمینی علاقے جیسے متعدد اضافی بنیادوں اور حالات کا شاہد ہوسکتا ہے، اور یقیناً، ان میں سے کئی حالات کسی تحریک پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
بنیادوں اور حالات کے عوامل کو مسترد کرنے والے نکتے کے طور پر وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد تصادم کی صورت میں تحریک کی مہارت ہوتی ہے، جسے ماہرینِ تعلیم ’’ایجنسی‘‘ کہتے ہیں۔ مہارتیں اور ایجنسی ان متغیرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن پر تحریک کا کچھ قابو ہوتا ہے: تحریک کیا حکمتِ عملی منتخب کرتی ہے؛ لوگوں کو اکٹھا کرنے اور شامل کیے رکھنے کے لیے کون سی زبان کا انتخاب کرتی ہے؛ یہ اتحاد کیسے قائم کرتی ہے؛ یہ اپنے مخالف کو کہاں اور کیسے ہدف بناتی ہے؛ اور اسی طرح دیگر ہزاروں فیصلے جو عوامی مزاحمت کو جاری رکھتے ہیں۔
میرے خیال میں، تشدد سے پاک کسی تحریک سے جڑے رہنے والے اور اس کا تجزیہ کرنے والے یہ مہارت-مرکز عوامل اکثر واضح طور پر نظر انداز کردیتے ہیں۔ اگرچہ یہ اس مضمون کے دائرہ کار سے باہر ہے، تاہم اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لوگ شک میں ہوتے ہیں یا اُس پس منظر سے ناواقف ہوتے ہیں جس پر تشدد سے پاک تحریک کی بنیاد ہوتی ہے کہ طاقت، اجتماعی رویوں میں تبدیلی کے ذریعے، قابض و ظالم مخالفین سےعوامی تحریک کو عطا ہوسکتی ہے۔اس کی بجائے، وہ فرض کرلیتے ہیں کہ جہاں ایسے واقعات پیش آئے، وہاں انھیں ممکن بنانے میں بیرونی عوامل یا غیر معمولی حالات کارفرما رہے ہوں گے۔
تاہم، وسائل اور مہارتوں کی اہمیت میں کوئی کمی کیے بنا، ہم تشدد سے پاک تحریکوں میں کی ترقی اور نتائج میں بنیادوں اور حالات کے اثر و نفوذ کو اہمیت دے سکتے ہیں۔ درحقیت، وسائل اور مہارتیں فرق واضح کرتی ہیں، اور بعض واقعات میں تحریکات ان ہی کے سبب مخالف حالات پر قابو پانے، جُل دینے یا تبدیل کرنے میں کام یاب ہوئی ہیں۔
تجارت یا فوج جیسے شعبوں میں مہارتوں اور وسائل کی اہمیت، اور بعض اوقات برتری کو خصوصی معلومات کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ضمن میں عدم تشدد کی حامل تحریکوں کو کس طرح کچھ مختلف ہونا چاہیے؟ ایک فوجی جنرل یا کاروباری چیف ایگزیکٹیو کو اگر یہ بتایا جائے کہ حکمتِ عملی اُن کی کوششوں کے نتائج پر معمولی اہمیت کی حامل تھی تو وہ ہنسیں گے۔ اگر لوگ سوچتے کہ مقابلوں اور متنازعہ بات چیت کے نتائج ہمیشہ مادی حالات کی بنیاد پر طے شدہ ہوتے ہیں تو سن زو کی کلاسیک ’دی آرٹ اوف وار‘ (جنگ کا فن) اتنی معروف نہ ہوتی۔
اس مضمون کے ابتدائی سوال کی طرف واپس لوٹتے ہوئے ، کہ ’ آخر کیا چیز تشدد سے پاک تحریکوں کو مؤثر بناتی ہے؟‘، ہم تاریخی تحریکوں میں حکمتِ عملیوں کے انتخاب اور بہترین طریقوں کی طرف رجوع کرکے جوابات تلاش کرسکتے ہیں۔ تحریک کے نتائج پر اثرانداز ہوسکنے والے وسائل مرکز عوامل اور مہارتیں بہت تنوع (ورائٹی) کی حامل ہیں، لیکن (آسانی کی خاطر) اگر ہم ان کا نچوڑ نکالیں تو کام یاب تشدد سے پاک تحریکات کی تین صفات اُبھر کر سامنے آتی ہیں: اتحاد، منصوبہ بندی اور تشدد سے پاک نظم و ضبط۔

اتحاد، منصوبہ بندی اور نظم و ضبط

پہلی نظر میں ایسی صفات کی اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں دکھائی دے سکتی ہے۔ اس کے باوجود جب تحریکوں کی بنیادی حکمتِ عملی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو بعض اوقات ان صفات کی بنیاد اور گہرائی سے صرفِ نظر کرلیا جاتا ہے۔ذیل میں ہر صفت کی وضاحت بیان کی جارہی ہے۔
اتحاد اہم ہے کیوں کہ تشدد سے پاک تحریکات معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے عوام کی شراکت سے اپنی طاقت حاصل کرتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو تعداد شمار ہوتی ہے۔ جتنے زیادہ افراد کسی تحریک کی حمایت کریں گے، اس کا جواز، طاقت اور عملی نتائج اتنے ہی بڑے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کام یاب تحریکات مسلسل اپنے معاشرے کے نئے گروہوں تک رسائی حاصل کرتی رہتی ہیں، مثلاً خواتین و حضرات؛ جوان و بزرگ؛ شہری و دیہی آبادیاں؛ اقلیتیں؛ مذہبی اداروں کے اراکین؛ کسان، مزدور، کاروباری افراد اور پیشہ ور ماہرین؛ امیر، متوسط اور کم آمدنی والے طبقات؛ پولیس، سپاہی اور عدلیہ کے اراکین، وغیرہ۔
کام یاب تحریکات اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ مخالفین کی وفاداری تبدیل کرنے کی صلاحیت متحدہ نقطۂ نظر کی خاطر مسلسل عوامی مزاحمت کی ایک طاقت شمار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ مخالف کے حامیوں تک بھی پہنچتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جنوبی افریقا کی نسلی امتیاز کے خلاف تحریک نے شہری رکاوٹیں عبور کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی دعوت دی جس سے اس کی حمایت میں اضافہ ہوا اور تبدیلی کے مقصد کے لیے اتحاد قائم ہوا، یہاں تک کہ ان میں بعض سفید فام حمایتی بھی شامل تھے جو اس سے پہلے نسلی امتیاز پر قائم حکومت کا ساتھ دیتے رہے تھے۔
تشدد سے پاک تحریکوں کے شرکا کو اپنی تحریک کے اقدامات کے لیے پیچیدہ فیصلے بھی لینے چاہییں۔ اس ضمن میں حکمتِ عملی کی منصوبہ بندی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ کسی مقصد کی اہلیت یا مخالف کی ناقابلِ دفاع غیر اخلاقی حرکت سے قطع نظر، عموماً ظلم پر صرف اور صرف فوری اور اچانک مزاحمتی کارروائیوں کے ذریعے قابو نہیں پایا جاسکتا، چاہے یہ کارروائیاں کتنے ہی بہترین طریقے سے کیوں نہ سر انجام دی گئی ہوں۔ بل کہ تحریکوں میں اس وقت وسعت پیدا ہوتی ہے جب وہ عوامی مزاحمت کو منظم کرنے اور اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے معاشرے کے افراد کی طرف سے اپنائے جانے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
استعمال کیے جانے والے حربوں اور ان کی ترتیب کا فیصلہ کرنا؛ تحریک کے نمائندہ عوام کی خواہشات اور تکالیف کی بنیاد پر تبدیلی کی طاقت میں اضافہ کرنا؛ حکمتِ عملی کے ساتھ اپنے انفرادی اور گروہی اہداف طے کرنے اور مختصر، وسط اور طویل مدتی مقاصد حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا؛ اور اتحاد پر مذاکرات کرنے اور اتحاد بنانے کے لیے ابلاغی (کمیونی کیشن) ذریعوں کا قیام عمل میں لانا چند ایسے معاملات ہیں جن کے گرد تشدد سے پاک تحریکات کو تخلیقی طریقے سے حکمتِ عملی کا جال بننا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے اس صورتِ حال کے ایک جامع تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ایک تشدد سے پاک جدوجہد وقوع پذیر ہورہی ہوتی ہے۔ اپنی منصوبہ بندی کے ایک جزو کے طور پر، مؤثر تحریکات مسلسل رسمی و غیر رسمی طریقے سے معلومات اکٹھی کرتی ہیں، نچلی سطح (گراس روٹ لیول) پر لوگوں کی بات سنتی ہیں، اور خود اپنا، اپنے مخالفین اور آزاد فریقینِ سوئم کا تجزیہ کرتی ہیں۔
آخر کار، کوئی حکمتِ عملی اسی وقت مؤثر ثابت ہوتی ہے جب اسے ایک منظم انداز میں انجام دیا جائے۔ تشدد سے پاک کسی تحریک کو نظم و ضبط کی ناکامی کا سب سے خطرہ یہ لاحق ہوتا ہے کہ اس کے بعض ارکان تشدد پر نہ اتر آئیں۔ اسی لیے، شرکا کو تشدد سے پاک نظم و ضبط کا درس مسلسل دیا جاتا ہے، جو عوام کو تشدد سے دور رکھ سکے، یہاں تک کہ انتہائی اشتعال کی حالت میں بھی۔ اس کی عملی وجوہات ہیں۔ تحریک کے کسی رکن کی جانب سے پُر تشدد فعل کا ارتکاب تحریک کے جواز کو گھٹا سکتا ہے نیز تحریک کے مخالفین کو طاقت کے استعمال کا ایک عذر فراہم کرسکتا ہے۔ مزید بر آں، مسلسل تشدد سے پاک رہنے والی تحریک کے پاس اپنی جدوجہد کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی تعداد، حتا کہ مخالفین کو بھی متاثر کرنے کا کہیں زیادہ موقع حاصل ہوتا ہے۔
ان صفات کی مکمل وضاحت میں کتابوں کی کتابیں بھر سکتی ہیں اور تشدد سے پاک مزاحمت کے موضوع پر ہونے منظم تحقیق میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر ابھرنے والی تحریک اس رجحان کی اجتماعی تفہیم میں معلومات کا ایک خزانہ شامل کرتی ہے، تاہم سیاسی اور معاشرتی افعال کی اس شکل کے فن اور سائنس کا کافی مطالعہ تاحال باقی ہے جس کا خاکہ تیار کرنے اور تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہ تین خصوصیات؛ اتحاد، منصوبہ بندی اور نظم و ضبط؛ وقت کی قید سے آزاد ہیں، اور ایسا عمومی فریم ورک فراہم کرتی ہیں جس کے ذریعے تحریکات کے اراکین اور حمایتیوں کے ساتھ ساتھ انھیں رپورٹ کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے والے بھی کسی تحریک کی کیفیت کی فوری جانچ کرسکتے ہیں۔ کیا یہ متحد ہے؟ کیا اس کے پاس کوئی منصوبہ بھی ہے؟ کیا یہ منظم ہے؟ تشدد سے پاک عمل میں ان اصولوں کو شامل کرلینے والوں کے افعال پہلے ہی اس دنیا کو مزید پُرامن بنانے کے راستے پر روشن ہیں۔ مستقبل کی صورت ان کے ہاتھوں تشکیل پائے گی جو انھیں جاری رکھیں گے۔


[۱] اس مضمون کے لیے، ’’کام یاب‘‘ تحریکات سے میری مراد وہ ہیں جنھوں نے اپنے طے شدہ اہداف حاصل کیے اور ’’ناکام‘‘ سے مراد وہ ہیں جو اپنے بیان کردہ اہداف حاصل نہ کرسکیں۔ اس طرح اس تعریف میں ایک عارضی عنصر بھی شامل ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک کام یاب تحریک نے اپنے طے شدہ اہداف حاصل کیے ہوں (مثلاً، ۲۰۰۴ء میں یوکرائن کی اورنج تحریک) لیکن بعد کے سالوں کے دوران تحریک کو درپیش چیلنجوں میں تبدیلی اسے پیچھے کی طرف دھکیل دے (یوکرائن کے واقعے سے متعلق مزید معلومات کے لیے دیکھیے اوپن ڈیموکریسی پر ۱۷ نومبر ۲۰۱۰ء کا مضمون ’’عوام کے حصولِ طاقت کے بعد کی جدوجہد‘‘ [The struggle after people power wins] از: اولینا ٹریگب اور اوکسانا شولیر)۔ یوں ہی اس کے برعکس، ایک تحریک اپنے طے شدہ اہداف کے حصول میں ناکام ہوسکتی ہے (مثلاً ۱۹۸۹ء میں چین کی جمہوریت نواز تحریک) لیکن بعد کے سالوں میں ایسے اثرات مرتب کرسکتی ہے جو تحریک کے مقصد کی تعمیری ترقی میں مدد دیں (چین کے واقعے سے متعلق مزید معلومات کے لیے دیکھیے اوپن ڈیموکریسی پر ۱۷ نومبر ۲۰۱۰ء کا مضمون ’’چین میں جبری مارکس [Repression’s Paradox in China] از: لیسٹر کرٹز)۔ اگرچہ ضروری نہیں کہ کسی مخصوص تحریک کی درجہ بندی ’’کام یاب‘‘ یا ’’ناکام‘‘ کے طور پر تبدیل کریں، تاہم ان کے مابعد اثرات خاصے گہرے ہوتے ہیں اور اسی لیے یہ اپنے آپ میں قابلِ ذکر ہیں۔

Comments