آج کل ہمارے ہاں ڈراموں میں ایک نکتے پر ڈراما نگاروں کی اکثریت کا بہت زور ہے۔ اور وہ نکتہ یہ ہے کہ عورت مظلوم ہے، عورت بے گناہ ہے، عورت معصوم ہے۔ اس نکتے کو ہر ڈرامے میں گھما پھرا کر، خوب رنگ بھر کر اجاگر کیا جاتا ہے۔ عورت اگر چوری چھپے کسی سے مل رہی ہے، ملاقاتیں کررہی ہے، یا کچھ بھی غلط تو اُسے پہلے مرد سے بے عزت کرواکر اُس کے بعد یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ جس سے مل رہی تھی وہ کوئی پرانا عزیز تھا، کوئی رشتے دار تھا، یا کوئی بھی ایسی کہانی جس سے وہ مظلوم ثابت ہوجاتی ہے اور مرد انتہائی شکی اور ذلیل ٹھہرتا ہے۔ جب کہ مرد اگر کسی سے ملتا ہوا دکھایا جائے تو وہ یقیناً اُس کی محبوبہ یا گرل فرینڈ ہوتی ہے جس سے وہ فلرٹ کررہا ہے یا اپنی بیوی کو دھوکا دے رہا ہے یا اپنے بچوں کے ساتھ غلط کررہا ہے۔ پھر آخر میں اُس کا کچا چٹھا کھولا جاتا ہے، لڑکی کے ہاتھوں ذلیل کروایا جاتا ہے اور گال پر تھپڑ پڑواکر ایک مکالمہ ادا کیا جاتا ہے کہ ’’مرد تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔‘‘ یہ مکالمہ بھی مختلف مناظر اور مختلف انداز سے ہر ڈراما نگار پیش کرتا ہے۔
ہمارے گھروں میں یہ ڈرامے بہت شوق اور رغبت سے دیکھے جاتے ہیں اور ہم یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ صرف ڈرامے ہی تو ہیں لیکن یہی کہانیاں آہستہ آہستہ حقیقی زندگیوں میں شامل ہونے لگتی ہیں۔ بہن اپنے بھائی کے لیے، بیوی اپنے شوہر کے لیے ڈراموں سے سیکھے ہوئے جذباتی جملے بلیک میلنگ یا طعنہ دینے کے لیے استعمال کرنے لگتی ہے اور ہر لڑکی کسی بھی لڑکے سے مایوس ہونے پر ’’مرد تو ہوتے ہی ایسے ہیں‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ وہ بھی مرد ہی تھا جو اُس کے دنیا میں آنے کا سبب بنا، وہ بھی مرد ہی تھا جو اُس لڑکی کی ماں کو محبت دیتا رہا، وہ بھی مرد ہی تھا جو اُس کو شفقت اور لاڈ پیار سے پالتا رہا، اور یوں ایک مکالمے میں سارے مرد مردود ٹھہرتے ہیں۔
کیبل کی بلا آنے سے پہلے روز بس ایک ڈرامہ لگتا تھا پیٹیوی سے شام آٹھ بجے اور یہی کوئی تیرہ اقساط ہوتی تھیں اس کی۔ اب تو کمبخت پورے پورے چینل ہی ڈراموں کے لیے مختص ہیں جو دن میں بیسیوں ڈرامے دکھاتے ہیں اور ہر ڈرامے کی سینکڑوں اقساط چلتی رہتی ہیں۔ گھر بھر کے آدمیوں، عورتوں، لڑکے، لڑکیوں کو لت لگ چکی ہے تفریح کے نام پر اس گاربیج کو دیکھنے کی۔ حالانکہ جس طرح کوئی شے کھانے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا معیار کیا ہے اسی طرح ہم کیا پڑھتے ہیں اور سکرین پر کیا دیکھتے ہیں اس کے معیار کابھی خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ ہر چیز ہر وقت دیکھتے رہو۔ ٹی وی کے ہاتھوں بہت سے آزادی کے خواہاں لوگ بھی غلام بن چکے ہیں۔
ReplyDeleteباقی مرد بیچارے کا احوال تو یہاں بھی پڑھ سکتے ہیں
http://ahmedirfanshafqat.blogspot.com/2010/01/blog-post.html
نجانے کيوں لوگ مرد کو ذليل ہوتا ديکھ کر محظوظ ہوتے ہيں اور عورت کو روتا ديکھ کر
ReplyDeleteاو جناب چلے دیں کب تک چلیں گے ایسے ڈرامے ، کبھی نہ کبھی نہ کبھی معیاری ڈرامے بھی آنا شروع ہو جائیں گے ۔ میں تو چینل بدل دیتا ہوں اور ڈرامے کی بجائے کوئی ڈاکو منٹری دیکحنا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
ReplyDeleteعمار جل کیوں رہے ہو ایسے ڈراموں سے :-P
ReplyDeleteمجھے ان ڈراموں کا کچھ نہیں پتہ دیکھتی تو ضرور کچھ لکھتی ۔۔۔ پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھتی تھی لیکن ۶ ماہ سے وہ بھی نہیں دیکھے ۔۔
میں نے تو سنا تھا کہ عورت زیادہ شکی ہوتی ہے ۔۔۔
ReplyDelete