وہی جامعہ کو رونا

جب کوئی اور موضوع سمجھ نہیں آتا، اپنی جامعہ کراچی یاد آجاتی ہے۔ جامعہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا لکھو، کم ہے۔ تعمیرات، ڈھانچہ، نظام، تعلیم، تدریس، اساتذہ۔۔۔ جامعہ سے وابستہ وہ کون سی چیز ہے جو تفصیلی گفتگو کی محتاج نہ ہو۔

فائنل ایئر میں طلبہ عموماً زیادہ محنت کرتے ہیں کہ یار، آخری سال ہے، جی جان سے محنت کرکے بہتر نتائج حاصل کرلیے جائیں۔ ایسے میں اگر شعبے کے چیئرمین کی جانب سے اساتذہ پر دباؤ ڈالا جائے کہ فائنل ایئر کے طلبہ کو 100 میں 65 سے زیادہ نمبرز نہ دیے جائیں تو آپ بتائیے، یہ حرکت کیسی ہے؟ جب کہ پاس ہونے کے لیے 50 نمبرز کی حد ہے، اور 70 نمبرز سے اوپر B گریڈ بنتا ہے۔ یعنی کہ طلبہ نے جتنی بھی محنت کی ہو، ان کو 65 سے زیادہ نمبرز نہیں ملیں گے اور گریڈ بنے گا C۔

یہ کوئی سنی سنائی خبر نہیں ہے بلکہ میری خالہ زاد جو خود جامعہ کے ایک شعبے میں پڑھارہی ہیں، انہوں نے کل ہی ذکر کیا۔ اب وہ پریشان ہیں کہ کیا کریں؟ اگر چیئرمین کی بات نہیں مانتیں تو امتحانی کاپیاں ویسے بھی پہلے تو چیئرمین کے پاس ہی جائیں گی، لہٰذا نتائج میں تبدیلی تو کی ہی جائے گی ساتھ نوکری جانے کے امکانات بھی کیوں کہ ابھی عارضی لیکچرار شپ ہے۔ اگر چیئرمین کی بات مانی جائے تو طلبہ کے ساتھ ناانصافی اور ان کی بددعائیں۔ جی جناب۔۔۔!!!

Comments

  1. میری دانست میں تو شروع کے سال یا سالوں میں محنت کرلی جائے تو آخری وقت خطرہ کی گھنٹی بجنے کا کم ہی چانس ہوتا ہے۔ پہلے اور دوسرے سال میں اچھی جی پی بنانا پھر تیسرے اور چوتھے سال میں اسے برقرار رکھنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔

    ویسے چیئرمین کی مذکورہ پالیسی تو اَن آفیشل ہی ہوگی۔ ایسے میں تو چغلی کھائی جاسکتی ہے ;)

    ReplyDelete
  2. جہاں چیئرمین ایک باس ہو وہاں یہی صورتحال سامنے آسکتی ہے۔

    ReplyDelete
  3. ہمیں وہ کرنا چاہیئے جو ہمارے بس میں ہے پھر اللہ وہ کرتا ہے جو ہمارے نہیں بلکہ اللہ کے بس میں ہے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے آپکے بھیا کی۔ آپکی کزن حق کے لئے جو کرسکتی ہیں‘ اُنہیں وہ کرنا چاہیئے۔

    ReplyDelete
  4. یہ پوسٹ تو بہر حال اس عارضی لیکچررشپ کے لیے تیز دھار چھری ثابت ہو گی

    ReplyDelete
  5. یہ تو سراسر ناانصافی ہے- اس میں بھی دشمن کی کوئی سازش نظر آتی ہے۔ آپ لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

    ReplyDelete
  6. جناب آپکی تحاریر اور آپکا بلاگ مجھے پسند آیا۔ یہ آپکی پہلی پوسٹ تھی جو میں نے پڑھی۔ انشاءللہ مستقبل میں بھی وزٹ کرتا رہوں گا۔ :-) مگر آپکے بلاگ میں سے آپکا ای میل ایڈریس نہیں ملا :sad:
    Best of Luck

    ReplyDelete
  7. ہمارے شعبہ ابلاغ عامہ میں ایسی صورت حال نہیں ہے. وہاں معاملا مختلف ہے. استاتزہ ستر اسی نمبر آرام سے دے دیتے ہیں، اگر کسی کا پرچہ بہت ہی برا پرچہ ہوا ہو تو چالیس پچاس نمبر دے کر اسے بھی پاس کردیا جاتا ہے. بعض دفعہ پاس کرنے کے لئے پرچیاں بھی چلتی ہیں. ہماری کلاس میں چئزپرسن کی صاحبزادی بھی زیر تعلیم ہیں، زیر تعیلیم کیا بس رجسٹر ہیں. پورے سمیسٹر وہ کبھی نہ آئیں البتہ امتحان میں آئیں، پرچہ دئے اور پاس ہوئیں. ہمارے سب ایڈیٹنگ کے استاد اور ڈان اخبار کے سنیر ایڈیٹر ہمیر اشتیاق صاحب پر موصوفہ کو پاس کرنے کے لئے دباو پڑا تو انہوں صرف چئیرپرسن کی صاحبزادی ہی نہیں پوری کلاس کے ہر فیل اسٹوڈینٹ کو امتیازی نمبر دے کر پاس کردیا. نیوز رپورٹنگ مین بھی ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی، ہم سارے سال خبرے لکھتے رہے لیکن نتیجہ آیا تو خبر کوئی اور بن گیا.

    ReplyDelete
  8. ہمارے شعبہ ابلاغ عامہ میں ایسی صورت حال نہیں ہے. وہاں معاملا مختلف ہے. استاتزہ ستر اسی نمبر آرام سے دے دیتے ہیں، اگر کسی کا پرچہ بہت ہی برا پرچہ ہوا ہو تو چالیس پچاس نمبر دے کر اسے بھی پاس کردیا جاتا ہے. بعض دفعہ پاس کرنے کے لئے پرچیاں بھی چلتی ہیں. ہماری کلاس میں چئزپرسن کی صاحبزادی بھی زیر تعلیم ہیں، زیر تعیلیم کیا بس رجسٹر ہیں. پورے سمیسٹر وہ کبھی نہ آئیں البتہ امتحان میں آئیں، پرچہ دئے اور پاس ہوئیں. ہمارے سب ایڈیٹنگ کے استاد اور ڈان اخبار کے سنیر ایڈیٹر ہمیر اشتیاق صاحب پر موصوفہ کو پاس کرنے کے لئے دباو پڑا تو انہوں صرف چئیرپرسن کی صاحبزادی ہی نہیں پوری کلاس کے ہر فیل اسٹوڈینٹ کو امتیازی نمبر دے کر پاس کردیا. نیوز رپورٹنگ مین بھی ایسا ہی صورت حال پیدا ہوئی، ہم سارے سال خبرے لگتے رہے لیکن نتیجہ آیا تو خبر کوئی اور بن گیا.

    ReplyDelete
  9. کاشف، کراچی!
    بلاگ پر خوش آمدید۔ جامعہ کے طالبِ علم کو اپنے بلاگ پر دیکھ کر زیادہ خوشی ہوئی۔ جو صورتِ حال میں نے اوپر بیان کی، ویسی ہر جگہ نہیں پائی جاتی بلکہ ایسا کچھ خاص ضروریات کے پیشِ نظر حکم دیا جاتا ہے۔ ورنہ ہمارے اپنے شعبے میں بھی عام طور سے سب کو پاس کردیا جاتا ہے۔ پولیٹکل سائنس میں بھی پہلے سال یہی دیکھنے کو ملا۔ اگر استاد فیورٹ ازم کا حامی نکلے اور آپ اس کے چہیتے بن جائیں تو کیا ہی بات ہے۔ چیئرمین اور اساتذہ کے بچوں یا رشتہ داروں کی تو خیر الگ ہی بات ہے۔ :)

    ReplyDelete
  10. کاشف، کراچی!
    بلاگ پر خوش آمدید۔ جامعہ کے طالبِ علم کو اپنے بلاگ پر دیکھ کر زیادہ خوشی ہوئی۔ جو صورتِ حال میں نے اوپر بیان کی، ویسی ہر جگہ نہیں پائی جاتی بلکہ ایسا کچھ خاص ضروریات کے پیشِ نظر حکم دیا جاتا ہے۔ ورنہ ہمارے اپنے شعبے میں بھی عام طور سے سب کو پاس کردیا جاتا ہے۔ پولیٹکل سائنس میں بھی پہلے سال یہی دیکھنے کو ملا۔ اگر استاد فیورٹ ازم کا حامی نکلے اور آپ اس کے چہیتے بن جائیں تو کیا ہی بات ہے۔ چیئرمین اور اساتذہ کے بچوں یا رشتہ داروں کی تو خیر الگ ہی بات ہے۔

    ReplyDelete
  11. ابن ضیاء صاحب بجا فرمایا آپ نے، البتہ ایک مسئلہ جامعہ کراچی کا متفقہ اور مسلمہ مسئلہ ہے یعنی فیورٹ ازم۔ گنتی کے چند استاتزہ کے دیگر تمام کا یہی رجہان ہے۔
    میری بہن شعبہ نباتیات میں لیکچرار ہے، اس سے کلیہ سائنس کے تمام شعبوں کی کافی جنکاری ملتی رہتی ہے۔ کامرس اور بزنس اسٹڈیز میں صورت حال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ابلاغ عامہ اور آرٹس کے دیگر شعبوں کے تو کیا کہنے۔
    ویسے جب تک محمود غزنوی صاحب ہمارے صدر شعبہ تھے، حالات کافی بہتر تھے، اب رفیعہ تاج صاحبہ شعبہ کو لیمپس اور سی بی ایم بنانے پر تلی ہیں، میں تعلیمی کی نہیں ماحول کی بات کررہا ہوں۔
    پچھلے تبصرے میں میرا نام "کراچی" شائع ہوا ہے، اور لنک بھی غلط ہے۔ شاید میری اپنی ہی غلطی تھی۔

    ReplyDelete
  12. بہت شکریہ عادل بھیا۔ ای میل ایڈریس کا کیا کریں گے جناب والا؟ عمار ایٹ ابنِ ضیاء ڈاٹ کام پر ای۔میل کرسکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. اچھا، ماحول ایسا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ یعنی کہ مجھے بھی اس طرف کے چکر لگانے پڑیں گے۔ :P
    پچھلے تبصرے میں آپ کا نام اور بلاگ کا ربط درست کردیا ہے۔

    ReplyDelete
  14. اگر اجازت ہو تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا شعبہ کیا ہے؟

    ReplyDelete
  15. آپ پہلے وعدہ کریں کہ آپ میری شکایت نہیں کریں گے :P

    ReplyDelete
  16. وعدہ جی وعدہ۔
    بلکہ قسم چکا لیں۔
    ویسے بھی میں پاکستان سے باہر ہوں۔ اور کراچی کبھی گیا نہیں۔ :nahi:

    ReplyDelete
  17. اچھا تو پھر ٹھیک ہے :) میں شعبۂ تعلیم میں ہوں۔

    ReplyDelete

Post a Comment