بم دھماکہ اگرچہ دوسرے صوبے کے شہر میں ہوا تھا لیکن اس صوبے کے وزیرِ داخلہ کی بوکھلاہٹ اور ان سے متعلقہ محکمہ جات کے ہر سیکریٹری کی دوڑ قابلِ دید تھی۔ وزیرِ داخلہ نے تناؤ کے عالم میں ٹی وی کھولا تو صحافی کو حکومتی اقدامات کا پوسٹ مارٹم اور حفاظتی پہلوؤں کے نقائص واضح کرتے دیکھ کر ان کا پارہ آسمان پر پہنچ گیا۔ غصے میں تنک کے ٹی وی چینل تبدیل کیا تو اگلے نیوز چینل کا منظر بھی پچھلے سے کچھ خاص مختلف نہیں تھا۔ آخر کار انہوں نے ٹی وی بند کرکے ریموٹ زمین پر دے مارا۔
اسی لمحے ان کے ملازم نے اطلاع دی کہ میٹنگ روم میں تمام افسران جمع ہوچکے ہیں۔ وزیرِ داخلہ صاحب نے سامنے میز پر پڑی فائل اٹھائی اور فرش پر پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
میٹنگ روم میں داخل ہوئے تو کمرے میں جاری سرگوشیاں اچانک دم توڑ گئیں اور تمام لوگ انہیں ایسے گھورنے لگے جیسے ان کے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔ انہوں نے باقی تمام لوگوں کے مقابلے میں آنکھیں زیادہ پھاڑ کر گھورا اور اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ اُسی روایتی بریفنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں زیادہ تر وہی پرانی باتیں شامل تھیں جو وہ اپنا منصب سنبھالنے کے وقت سے سنتے چلے آرہے تھے۔ جتنے وقت بریفنگ جاری رہی، وہ جماہیاں لیتے رہے۔ بریفنگ ختم ہونے پر شاید سب سے زیادہ لمبی چین کی سانس انہی کی تھی۔
وزیرِ داخلہ صاحب کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھے اور کچھ بولنے سے پہلے کھنکھارنا مناسب خیال کیا۔ لب کھولے تو اول پرانی باتیں دہرائیں۔ پھر یہ سوال اٹھا کہ آخر اب کیا قدم اٹھایا جائے تاکہ دکھایا جاسکے کہ حکومت اپنی طرف سے تمام حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار کررہی ہے۔
“پچھلے دنوں جب دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو ہماری طرف سے کیا قدم اٹھایا گیا تھا؟” وزیر داخلہ نے سوال اٹھایا۔
“سر! ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی لگائی تھی۔” ایک ماتحت نے جواب دیا۔
“اس سے پہلے کون سی پابندی لگائی تھی؟” اگلا سوال ہوا۔
تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ کہیں سے کوئی جواب نہیں اٹھا تو پھر سوال ہوا: “اب کیا کرنا ہے؟؟؟”
کمرے میں کھسر پھسر سنائی دی۔۔۔ کچھ وقت بعد کہیں سے منمناتی ہوئی آواز آئی: “ڈبل سواری۔۔۔”
“لیکن اس کا فائدہ؟” ایک ماتحت نے سوال پوچھا۔
“فائدہ یہ کہ لوگوں کو پتا چلے گا کہ حکومت اپنی طرف سے اقدامات مکمل کرکے بیٹھی ہے۔” یہ آواز کسی دوسرے چمچے کی تھی۔
وزیرِ داخلہ صاحب نے پُرسکون انداز میں تمام افراد پر نظر ڈالی اور حکم صادر ہوا:
“صوبے بھر میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کردو۔ فورا”
اجلاس برخواست ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر: کراچی میں عید الاضحٰی سے پہلے ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ پہلے اس میں تین دن کی، پھر پندرہ دن کی اور اب 10 محرم تک کی توسیع کردی گئی ہے۔
اسی لمحے ان کے ملازم نے اطلاع دی کہ میٹنگ روم میں تمام افسران جمع ہوچکے ہیں۔ وزیرِ داخلہ صاحب نے سامنے میز پر پڑی فائل اٹھائی اور فرش پر پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
میٹنگ روم میں داخل ہوئے تو کمرے میں جاری سرگوشیاں اچانک دم توڑ گئیں اور تمام لوگ انہیں ایسے گھورنے لگے جیسے ان کے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔ انہوں نے باقی تمام لوگوں کے مقابلے میں آنکھیں زیادہ پھاڑ کر گھورا اور اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ اُسی روایتی بریفنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں زیادہ تر وہی پرانی باتیں شامل تھیں جو وہ اپنا منصب سنبھالنے کے وقت سے سنتے چلے آرہے تھے۔ جتنے وقت بریفنگ جاری رہی، وہ جماہیاں لیتے رہے۔ بریفنگ ختم ہونے پر شاید سب سے زیادہ لمبی چین کی سانس انہی کی تھی۔
وزیرِ داخلہ صاحب کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھے اور کچھ بولنے سے پہلے کھنکھارنا مناسب خیال کیا۔ لب کھولے تو اول پرانی باتیں دہرائیں۔ پھر یہ سوال اٹھا کہ آخر اب کیا قدم اٹھایا جائے تاکہ دکھایا جاسکے کہ حکومت اپنی طرف سے تمام حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار کررہی ہے۔
“پچھلے دنوں جب دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو ہماری طرف سے کیا قدم اٹھایا گیا تھا؟” وزیر داخلہ نے سوال اٹھایا۔
“سر! ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی لگائی تھی۔” ایک ماتحت نے جواب دیا۔
“اس سے پہلے کون سی پابندی لگائی تھی؟” اگلا سوال ہوا۔
تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ کہیں سے کوئی جواب نہیں اٹھا تو پھر سوال ہوا: “اب کیا کرنا ہے؟؟؟”
کمرے میں کھسر پھسر سنائی دی۔۔۔ کچھ وقت بعد کہیں سے منمناتی ہوئی آواز آئی: “ڈبل سواری۔۔۔”
“لیکن اس کا فائدہ؟” ایک ماتحت نے سوال پوچھا۔
“فائدہ یہ کہ لوگوں کو پتا چلے گا کہ حکومت اپنی طرف سے اقدامات مکمل کرکے بیٹھی ہے۔” یہ آواز کسی دوسرے چمچے کی تھی۔
وزیرِ داخلہ صاحب نے پُرسکون انداز میں تمام افراد پر نظر ڈالی اور حکم صادر ہوا:
“صوبے بھر میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کردو۔ فورا”
اجلاس برخواست ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر: کراچی میں عید الاضحٰی سے پہلے ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ پہلے اس میں تین دن کی، پھر پندرہ دن کی اور اب 10 محرم تک کی توسیع کردی گئی ہے۔
Comments
Post a Comment